Sunday 5 March 2017

تصّوف ائّمہ اطہار اور نتہدین کی نظر میں

نہج الاسرار کا صفحہ نمبر223 جس میں مولا کا خطبہ سنتے ہی علماء و حکماء اٹھے اور اولیاء و اصفیاء آپکے قدم چومنے لگے اور اسم اعظم کی قسم دیکر عرض کیا کہ آپ اپنا کلام پورا کریں
حضرت علی نہ صرف علوم شریعت کے استاد تھے بلکہ علم طریقت،  معرفت و حقیقت کے بھی استاد اعلٰی تھے طریقت کے تمام سلسلے آپ ہی پر منتہی ہوتے ہیں جس کا اعتراف شبلی،  جنید،  سری سقطی،  ابو یزید بسطامی،  معروف کرخی اور دیگر علمائے طریقت نے کیا۔۔۔شرح ابن الحدید ج ا طبع مصر
اصحاب صفّہ مسجد نبوی کے چبوترے پر دن رات اپنے رب کو پکارا کرتے تھے انہیں حضور نے باطنی بیعت سے سرفراز کیا تھا او مولا علی بحیثیت روحانی باطنی عرفانی جانشین اور خلیفہ انکی تربیت کیا کرتے تھے وہ سب صوفی تھے مگر حضور کے عہد میں صحابیت سب سے بڑا درجہ تھا اسلئے صوفی لفظ عام نہیں ہواتھا مگر اصحاب صفّہ کا درجہ عام اصحاب سے بلند تھا اور یہ لوگ حضور کے باطنی مرید تھے- مولا علی سے لیکر 8 ویں امام رضاعلیہ السلام تک جن صوفیوں نے ائمہ طاہرین سے باطنی بیعت کی تھی اور باطنی خلفاء قرار پائے تھے مثلاً خواجہ حسن بصری،  مععوف کرخی،  حبیب عجمی،  فضیل بن عیاض وغیرہ کا گمراہ اور زندیق تھے- حضرت اویس قرنی نے حضور کی ظاہری زیارت نہیں کی تھی مگر حضور سے انہیں باطنی روحانی و عرفانی بیعت غیبی طور پر حاصل نہیں تھی اور کیا حضور سے فنا فی الشیخ نہیں تھا جو بتدریج فنا فی اللہ کے مقام پر فائز تھے اور عطائ ولی اور صوفی تھے- ہمارے ائمہ اطہار اسلامی تصوف کے خاف نہین تھے بلکہ تصوف کی گروہ بندی اور فرقہ پرستی،  دنی پرستی،  ریاکاری اور، حکمراں پرستی کے خلاف تھے اور تصوف و معرفت کو بدنام کرنے والے نام نہاد خودساختہ دشمنانِ آلِ محمد صوفیوں کے خلا ف تھے اگر اسلام تصوف کے مخالف ہوتے تو نسبی و صلبی رشتوں کے ساتھ ائمہ اطہار غیر آل. محمد اور غیر سادات کو باطنی بیعت نہ دیتے
اصحاب صفہ،  تابعین اور تبع تابعین میں مقرب عاشقان آلِ محمد اپنے دور میں باطنی علماء یعنی اولیاء صوفیاء اور عرفاء کہلاتے تھے دراصل اسلام کی اشاعت کے بعد تصوف کی دو اقسام نے جنم لیا ایک اسلامی تصوف اور دوسرا یونانی،  ھندوی ار ایرانی تصوف جو رھبانیت اور ترکِ دنیا کا متلاشی تھا- چوتھی صدی ھجری کے اختتام تک تصوف ایک اٹل اور واضح طرز زندگی اور انداز فکر بن گیا اور ادب شاعری فلسفہ کا مرکزِ توجہ بن گیا خصوصاً فارسی شاعری نے اسے اپنے دل میں جگہ دی اور اپنے رگ و پّے ۔ین جذب کرلیا اور جب تصوف نے ایرا ن کی روح اور دماغ کو اپنی گرفت میں لیا تو تصوف کو جمالیاتی حیثیت سے نشو و نما کا موقع ملا- اسکو اسلامی دنیا میں بہت جلد چاروں طرف  فروغ ہونے لگا اور عرب،  عراق،  شام اور مصر تصوف کا ابر بہاری ہر چمن کی آبیاری کرتا ہوا ایران پہنچا جسکی سرزمین اسکے لئے نہایت زرخیز ثابت ہوئ- تصوف نے ایران کی راہ سے ہندستان کا سفر کیا،  افغانستان میں انکا عارضی پڑاو ہوتا تھا جہاں ایک اندازے کے مطابق 37000 اولیاء و صوفیاء کے آستانے ہیں وجہ یہ تھی کہ عراق و ایران ہی سے 90 فیصد اہلِ معرفت اور تصوف براہ افغانستان اور کشمیر آئے اور سکونت اختیار کی،  کشمیر میں بانیءاسلام شاہ ھمدان،  علی الثانی میر سید علی ھمدانی نے سارے کشمیر کو مشرف بہ اسلام کیا اور شیو پرتوں کے تین من جنائؤ نذر آتش کیے گئے- ھندستان اولیاء و صوفیاء کا عظیم الشان گہوارہ بن گیا اور یہاں قادریہ،  چشتیہ،  سہروردیہ اور نقش بندیہ سلاسل نے مضبوطی سے قدم جمائے اور فارسی اور اردو ادب میں اپنے بیش بہا خزانے محفوظ کردئے-صوفیاء اپنے نفسوں اور دلوں کی صفائ کرتے اور صبر،  فاقہ،  قناعت،  فقر و مسکینی،  سنجیدگی،  خاموشی اور تنہائ اختیار کرکے خدمتِ خلق میِ مصروف رہتے- تصوف کی بنیادیں قرآن حکیم،  احادیث رسول و الِ رسول اور سنت و سیرتِ محمد و آلِ محمد پر قائم ہیِں انکا مرکز و محور و منبع پنجتن پاک و آلِ محمد اور بانی شاہِ ولایت،  معرفت اور تصوف مولا علی ہیں- تصوف خدائے تعالٰی کے وجود،  سالک کے وجود کو سمجھنے اور قرب و رضائے الٰہی کے حصول اور اسکی مخلوق سے محبت کا درس دیتا ہے- حیرت اس بات کی ہے کہ ایران و عراق میں تصوف کے صدر دفاتر رہے اور اکثریتی اولیاء و صرفیاء و عرفاء کا تعلق وہاں سے ہے جہاں اھل تشیع کی غالب اکثریت تھی اور آج بھی ہے اور وہیں کے علماء اور مجتہدین تصوف کو خلاف اسلام،  گمراہ اور زندیقیت کے فتوے دیتے رہے ہیں،  دراصل علمائے باطن کے تصفیہء قلب،  تزکیہء نفس،  عرفان،  محبت اور خدمت خلق کی سرگرمیوں اور معرفت کے اسرار و رموز سے عدم واقفیت نے علمائے ظاہر کو حاسد اور دشمن بنادیا اور ائمہ اطہار کے اقوال کو مسخ کرکے فرضی اور جعلی روایات کا سہارا لیکر انہوں نے ان علوم کی مخالفت کی جن پر وہ کبھی تقوے کی کمی کے باعث کاربند ہوہی نہیں سکتے کیونکہ ایک طرف حبت،  اخلاص،  اتحاد،  انسانی بھائ چارہ کی تلقین تو دوسری طرف نفرت،  عداوت،  کدورت،  حسد،  افتراق اور فرقہ پرستی کی تبلیغ غرضکہ معصومین کی آڑ لیکر علماءظاہر نے اس انمول اور نایان علم سے محروم کردیا جو مذہبِ اہلِ بیت اور آلِ محت سے وابستہ ہے جسکی صحیح ترجمانی اولیاء،  صوفیاء اور عرفاء کرتے ہیں- میں جعلی،  نقلی،  نمائشی ریاکار دنیا پرست،  خود پرست،  مفاد پرست،  عیّار،  مکّار اور ضمیر فروشوں کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا ذکر کررہا ہوں جنہوں فرقوں مسلکوں طبقوں اور گرو ہوں کی قید سے بالاتر ہوکر خود کو پنجتنی،  غلامانِ اھل بیت و آل محمد اور خاکپائے علی پر ایمان رکھتے ہوئے اپنے عدیم المثال عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے فتوئ صادر کردیا
زاہد تیری نما کو میرا سلام ہے
بے حّبِ اھلِ بیت عبادت حرام ہے

ہمارے علماء اور مجتہدین نے شیعوں کو جاہل،  کم علم اور کم فہم تصور کررکھا ہے کہ اپنے ذاتی حاسدنہ فتوے دیکر اجتہاد کے نام پر ائمّہ اطہور کی معرفت سے شریعت کی برتری کی خاطر ہمیں گمراہ کردیں گے جبکہ ہمارے چہاردہ معصومین معدن علمِ لدنی،  معرفت اور تصوف ہیں اور اسرار و رموزِ وحدت سے مکمل آشنا- ہر دور میں علمائے ظاہر نے حکومتوں کی پشت پناہی میں علمائے باطن کو زک پہونچائ ہے- صوف پہننے والے زاہد اور صوفی کو شریعتِ موسوی کو مسخ کرکے ان ہی علمائ ظاہر نے من مانی فتوے دے کر بظاہر سولی پر چڑھوادیا اور ہر دور میں انکی عظمت، فضیلت اور خدا پرستی سے مغلوب ہوکر قتل و غارتگری کے موجب بنتے رہے اور حقیقی عاشقان ِ الٰہی اور چہاردہ معصومین اور آلِ محمد کی مصائب کا سبب بنے- ذاکرین کا یہ حال ہے کہ انہوں نے وہابیوں کی طرں خوشامد میں، جیسے وہابی سقائے اللہ کے کسی کو نہیں مانتے اسی طرح یہ باور کرایا کہ ہم چہاردہ معصومین کے علاوہ کسی کو نہیں مانتے بس صرف علی ولی اور مولا ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب اھل بیت میں عباس بھی آقا، مولا اور ولی ہیں اور شیر خوار مجاہد بھی آقا، مولا اور ولی ہیں، اگر صرف علی ہی ولی اور مولا ہیں تو دیگر 13 معصومین کیا ہیں؟ آلِ محمد میں 12 ائمہ اطہار کے علاوہ دیگر ہستیاں کیا ہیں؟ کیا یہ کینا وھابیوں کی طرح درست ہے کہ بس ہم صرف پنجتن کے در کے سائل ہیں جبکہ اللہ نت وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا ہے مولا علی نے خود فرما یا ہے کہ مییں وسیلہ ہوں- ہمارے ذاکرین مولا علی کی جھوٹی خوشامد میں محمد و آلِ محمد کی فضیلت پر ہانی پھیر دیتے ہیں اور دوسری طرف جھوم جھوم کر مجالس میں سامعین سے مخاطب ہوکر کھڑے ہوکر اس حدیث پر داد دینے کی فرمائش کرتے ہیں کہ" حضور کی متفقہ حدیث پاک ہے کہ ہم چہوردہ معصومین میں پہلا بھی محمد اوسط بھی محمد آخر بھی محمد ہم کل کے کل محمد ہیں جسکی بھی جس دوع میں پیروی کروگے ہدایت و نجات پاجاؤ گے.....اب امام زمانہ کی غیبتِ کبرٰی میں ہم بظاہر اپنے دور کے امام کی پیروی او اطاعت و اتباع یا تقلید کیسے کریں جو اولیاء، عرفاء اور صوفیاء اللہ ، چہاردہ معصومین، آلِ محمد کی بتائ ہوئ تعلیمات پر عمل کرکے محبت، اضوت اور اتحاد کا پیغام پہونچارہے ہیں یا انکی اطاعت اور تقلید کریں جو تبّرٰی کے نام پر چہاردہ معصومین اور آلِ محمد کے نام پر فرقوں کے ذریعے ہمی وسیلے سے دور کرکے پرچار کررہے ہیں کہ ہمارے لئے پنجتن کافی ہیں جیسے کبھی کسی ملعون نے کہا تھھا ہمارے لئے قرآن کافی ہے اھلِ بیت کی ضرورت نہیںآج اسی کی سیرت پر چل کر علماء نے اولیاء، عرفاء و صوفیاء کے وسیلے کا انکار کرکے براہ راست آیتِ تطہیر کی مطہر ہستیوں کا قرب چاہتے ہیں جبکہ وہ اس قدر پاکیزہ، مطہر اور سرِ الٰہی کے رازدار اور ہم گناہ گار، خطاکار، نفس کی لذّتوں میں گرفتار، اوصافِ رذیلہ کے حامل مطہرہ ہستیوں کے براہ راست قرب کے دعویدار؟ کیا بغیر ان متقی پرہیزگار اور یادِ الٰی و ذکرِ خفی میں مشغول اولیاء اللہ کے وسیلے سے ہم تعلہمات و سیرتِ مطہرہ کی تقلید کرسکتے ہیں کہ انکی معرفت حاصل ہوسکے- ضرورت اس بات کی ہے کہ اھلِ معرفت کے وسیلے سے زینہ بہ زینہ پنجتن پاک و چہاردہ معصومین تک رسائی حاصل کریں جو "یادِ صنم، دیدِ صنم،  نادِ صنم،  رضائے صنم و قربِ صنم" کے مصداق ہیں - یہ حقیقت ہے کہ ایران و عراق میں تصوف کے دو گروہ شانہ نشانہ رہے ایک خدا پرست اور آلِ محمد پرست اور دوسری گروہ دنیا پرست، حکمراں پرست،  جاہ و منصب پرست اور مفاد پرست- آج بھی دونوں گروہ متصادم ہیں- ہمارے آئمہ اطہار نے اسی جعلی تصوف اور دنیادار جعلی مفاد پرست ایمان و ضمیر فروش صوفیوں کی مذمت کی جسکا فائدہ حاسد علماء و مجتہدین نے اٹھایا کہ اگر لوگ ولیوں،  صوفیوں اور عارفوں کی پیروی اور اذکار،  اشغال و مراقبے اور ذکر خفی میں مشغول ہوجائیگے تو انکی تقلید کا جنازہ نکل جائیگا اسیلئے ائمہ اطہار کی نام نہاد تصوف کی مذمت کی سیڑھی لگا کر اول فول بکنا شروع کردیا کہ ہر زمانے میں خدا پرست عاشقانِ آلِ محمد اولیاء،  صوفیاء و عرفاء مولاعلی ودیگر ائمہ اطہار کے مرید،  طالب اور بانی خلفاء رہے ہیں اور آج بھی امامِ عصر کی غیبتِ کبرٰی میں یہی اولیاء اللہ مرشدِ کامل کی حیثیت سے تشنگان و عاشقانِ معرفت کو امامِ وقت کی روحانی،  باطنی اور عرفانی بیعت غائبانہ طور پر دے رہے ہیں- اب امامِ عصر جسے چاہیں بوسیلہ اھلِ باطن معرفت کی دولت سے سرفراز فرمائیں.... مولا علی نے نہج السرار میں فرمایا" ہر نفس جو ذکرِ خفی میں مشغول ہے وہی زندہ ہے اور ہر نفس جو ذکِ خفی سے غافل ہے وہ مردہ ہے"- مولا نے اذکار کے ذریعے انوارِ الہٰی کے مشاہدہ کا طریقہ بتایا ہے کہ اسطرح یادِ الہٰی خفیہ طور پر کرو کہ قلب سے ذکر تمام اعضاء پر محیط ہوجائے اور طالبِ خدا اس میں مستغرق ہوجائے اور قلب کو نفسانی خیالات سے خالی کرکے روحانی مشاہدات کی طرف مشغول کردیتا ہے... اب علماء ظاہر اور مجتہدین تو ذکرِ خفی تعلیم کر نہیں سکتے اور نہ روحانی بیعت دے سکتے ہیں کیونکہ مراجع،  علماء و مجتہدین روحانی بیعت سے عاری ہیں بس وہ تقلید کے نام پر نام نہاد خود ساختہ بیعت کا مصداق بناکر فقہء جعفریہ کو ڈھال بناکر تقلید کا نعرہ لگاکر مذہبِ اھلِ بیت کے بھولے بھالے محّبان اور عقیدتمندان کو گمراہ کرکے حصولِ دولت،  ثروت اور شہرت میں مصروف ہوکر مجتہد،  امام،  نائب امام اور آیت اللہ جیسے القابات و خطابات کی بازیگری میں مصروف ہیں جس طرح امت مسلمہ کے دیگر مسلکوں اور فرقوں کے علماء جیسا خطاب چاہیں اپبنے لئے اور اپنے رہبروں کےلئے اختیار کرلیتے ہیں کیونکہ امام عصر مہلت دئے ہوئے ہیں کب 313 اولیاء اللہ انکی نصرت کےلئے لبّیک کہیں گے..... نظام الحسینی

2 comments:

  1. محترم پوسٹ بہت اچھی ہے۔ صوفیہ کی رد میں جو ائمہ معصومین ع کی روایات کو شیعہ علماء نے پیش کیا۔ شیخ مفید نے مقدس اردبیلی باقی مجلسی طاہر قمی وغیرہ اس پر بھی تحقیق پیش کریں۔ تو مہربانی ہوگی۔ شیخ مفید نے حضرت حسین بن منصور حلاج کی رد میں رسالہ لکھا۔ کیونکہ ان عرفاء کی رموز سے بڑے بڑے عالم دین ناآشنا ہیں۔ ابن منصور حلاج نے جو میں نے تحقیق کی ہے اس کے مطابق معتبر اور صحیح روایات سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کفر کیا ۔ بلکہ ان نے جو معارفانہ کلام کیا اسے ناسمجھون نے نا سمجھ کر اور حاکم وقت حامد بن عباس نے ڈھال بنا کر کفر کا فتویٰ لگوایا اس وقت بھی سنی شیعہ عالماء نے یہ فتویٰ دیا۔ اناالحق یہ آواز حلق ابن منصور سے آرہی تھی ۔مگر آواز اسی کی تھی جس کا جلوہ ابن منصور کے اندر تھا جب وہ اپنی ہستی اور نفس کی قید سے آزاد ہوکر اس خدا کے قریب ہوا۔ جس طرح آگ اور درخت سے آواز آئی اے موسی انی انااللہ الرب العلمین ۔ تو یہ درخت یا آگ کا کلام نہیں تھا بلکہ اللہ ہی کا کلام تھا لیکن اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ حلول کرگیا ان کے اندر بلکہ اللہ کی تجلی کاورود ہوا تو اس کا کلام اس آگ اور درخت سے ظاہر ہوا اور وہ آواز حضرت موسیٰ ع نے سنی۔ جب اگ و درخت اس کی تجلی گاہ بن سکتا ہے تو انسان میں اگر کوئی اس کا محبوب بندہ ہوجاتا ہے تو کیا وہ انسان اس کی تجلی گاہ نہیں بن سکتا؟ اور وہ اس کے ذریعے سے خلق سے کلام نہیں کرسکتا جس طرح آگ کے ذریعے موسی ع سے کلام کیا۔ اسی طرح بایزید بسطامی کا اپنا کلام نہیں تھا بلکہ ان پر ورود تجلی کے وقت یہ کیفیت طاری ہوتی تھی کہ اس وقت ظاہر میں لوگوں کو وہ نظر آرہے تھے لیکن ان کے اندر سے اللہ پاک اپنے جلوے کے ذریعے کلام کرتا کبھی سبحانی ما۔اعظم شانی تو کبھی میرا جھنڈا حضور کے جھنڈے سے بلند ہے ۔ یہ کلام کلام بایزید نہیں تھا۔ جس طرح آگ و درخت نے کہا کہ میں اللہ ہوں تو یہ بات آگ و درخت کے لیے نہیں اللہ نے نہیں کی بلکہ وہ اپنی ذات کی بات کررہا ہے۔ لیکن شیعہ و سنی ملا مولوی علماء نے ان باتوں کی وجہ سے جو کفر یہ فتوے لگائے ہیں اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان باتوں کو صرف سچا عارف ہی سمجھ سکتا ہے یا کم از کم وہ انسان جس کا قلب سیاہ نہ ہو اور قلب بیدار ہو۔ لیکن ان ظاہری علماء کا قلب سیاہ ہے اس کی سیاہ پن کی طرف انہوں نے کبھی توجہ نہیں کی اور صوفیوں پر ہی الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ قرآن کو ہی ناسمجھنے کی وجہ سے قرآن ان کو گمراہ کرتا ہے تو اس سے اعتراض قرآن پر نہیں بلکہ ناسمجھنے والے پر ہی کیا جائے گا اور اسے اپنے ہی سیاہ قلب کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے۔ اسی طرح صوفیاء کی رموز و اسرار سے بھرپور باتوں کو اگر یہ علماء نا سمجھ کر گمراہی کا خدشہ ظاہر کرکے کفر کے فتوے عائد کرتے ہیں تو اس مرتبہ بھی انہوں نے اپنے اندر کے مرض کو گمراہی کا سبب نہ جانا اور الزام صوفیا پر ہی لگا لیا۔ اور اجکل کہ ایک شیعہ ٹولہ یہی کام کررہا ہے کہ من گھڑت روایات کا سہارہ لے کر صوفیوں کو ذلیل کرنے کی کوشش میں سرگرم ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ ان شیعہ علماء کی لکھی گئی روایات معصومین جس میں صوفیوں کی مذمت کی گئی ہے پر ضرور تحقیق کرکے پیش کریں تاکہ حقیقت سب کے سامنے ائے۔ کیوں کہ اس طرح من گھڑت روایات کا سہارا لے کر یہ علماء طبقہ دین میں جو بگاڑ لا چکا ہے اس کی مثال نہیں ملتی

    ReplyDelete
  2. جناب عالی ! ائمہ معصومین نے تصوف اور صوفیوں کی شدید مخالفت کی ھے اور صوفیوں کو اپنا دشمن قرار دیا ھے۔حدیقۃ الشیعہ میں امام کی حدیث ھے کہ صوفیاء ھمارے دشمن ھیں جو شیعہ ان کی طرف میلان رکھے گا وہ ھمارا دشمن ھے اور وہ ان کے ساتھ یعنی ائمہ کے دشمنوں کے ساتھ محشور ھو گا۔عقیدہ وحدت الوجود اور احمقانہ اور خلاف شریعت و حقیقت نظریہ ھے جو تصوف کی بنیاد ھے۔صاحب مضمون ایک گمراہ کن عقیدہ پیش کر رھا ھے جس کا تشیع سے کوئی تعلق نہیں ھے۔

    ReplyDelete