Sunday 5 March 2017

معرفتِ ذات و صفات الٰہی

معرفتِ ذات و صفات الٰہی
مولا علی کے عرفانی خطبات" نہج الاسرار" کے آئینے میں

مولائے کائنات امیر المومنین،  امام المتقّیین،  سیّد المحسنین- مخلصین- صادقین- مصلحین- صالحین- مشاہدین- عارفین- سالکین، شہنشاہ ولایت، امام الوصیین،  ابوتراب،  ساقیءکوثر اور سِّرِ وحدت حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلا کے بیش قیمت و گرانقدر عرفانی خطبات کا مجموعہ" نہج الاسرار دینی اور سِّری تعلیمات کا وہ مقدس صحیفہ ہے جسکی عظمے،  فضیلت،  اہمیت،  افادیت و انفرادیت ابتدا سے ہی عالمِ اسلام میں مسّلم محکم رہی ہے اور ہر دور کے جلیل القدر، مقتدر،  ممتاز علمائے ظاہر و باطن نے اسکی عرفانیت کا خلوصِ دل سے اعتراف کیا ہے نہج الاسرار عرفان،  حکمت،  فلسفہ و ایقان کا وہ انمول خزانہ ہے جس کے جواہر پاروں کی چمک دمک اور ضیا پاشیوں نے جوہر شناسوں کو ششدر،  متحّیر،  حیرت زدہ اور علوم و معارف کے دامن کو زرنگار بنا رکھا ہے- افصح العرب کی آغوشِ تربیت میں پلنے اور حاملِ وحی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے نے علمِ لدّنی میں وہ تجّلیاں بھر دیں کہ آج بھی تشنگانِ معرفت و تصّوف کی آبیاری ہورہی ہے اور" فوق الکلام مخلوق و تحت الکلام خالق" کی صدائیں سنائ دیتی ہیں

مولا علی نے مذکورہ خطبات میں علومِ معرفت کے سربستہ اسرار و رموز کو اجاگر کیا ہے- وہ. پہلے مفکرِ اسلام ہیں جنہوں نے خداوند عالم کی  توحید اور اسکی صفات پر عقلی،  منطقی  اور عرفانی نقطہءنظر سے بحث کی ہے اور جو خطبات ارشاد فرمائے ہیں وہ معرفتِ الٰہیات میں نقش اول بھی ہیں اور نقش آخر بھی- انکی بلندی اور معنی آفرینی کے سامنے بڑے بڑے جید علماء،   حکماء،  فقہاء،  فلاسفہ او متکلمین کی ذہنی پروازیں ٹھٹھک کر رہ جاتی ہیں اور نکتہ رس طبیعتوں کو عجز و نارسائ کا اعتراف کرنا پڑتا ہے جن لوگوں نے الٰہیاتی و عرفانی مسائل میں علم و دانش کے دریا بہائے ہیں انک سرچشمہ آپ ہی کے خطبات ہیں- آپ نے اپنے بعض خطبات میں علمائے سوء کی مکاریوں اور فریب کاریوں سے بھی. لوگوں کو متنبہ کیا ہے جو علماء و فقہاء کے بھیس میں مسند قضاء پر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی دکانیں آراستہ کرکے دین و ضمیر فروشی کرتے ہیں
نہج الاسرار کی امتیازی و انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ مولا علی کے وہ غیر مطبوعہ خطبات،  کلمات،  احتجاجات،  ارشادات اور کنزہائے مخفی شامل ہیں جنہیں علامہ سید رضی نے نہج البللاغہ میں شامل. نہیں فرمایا- ان میں مواعظ حسنہ،  شریعت و طریقت کی تعلیم،  آل محمد کے فضائل و مناقب اور اسرارو رموزِ معرفت اور علم لدنّی آشکار کیے ہیں جو سلطان العلماء مولوی سید خلام حسین رضا مجتہد کی مستحسن کاوشوں کا نتیجہ ہے- ارشاداتِ معصومین کا کثیر ذخیرہ ہزاروں کتب خانوں کی تباہی اور لاکھوں کتب کے نذرِ آتش کیے جانے کے بعد بھی متعدد عربیش کتب میں موجود ہے اسیلئے دنیا علوم آل محمد سے کم کم واقف ہوسکی ہے- بنی امّیہ اور بنی عباس نے علوم آل محمد اور انکے اسماء مبارک کو دنیا سے مٹانے کی کوشش میں کوئ دقیقہ واگزاشت نہیں کیا- مولا علی کی روح فرسا شہادت کے بعد آل محمد پر ایسا انقلااب آیا کہ انکی شان میں سب و شتم جُز عبادت بنادیا گیا- علی،  حسن اور حسین نام رکھنا ایسا جرم تھا کہ اسکی سزا موت تھی- سالہا سال معصومین قید خانوں کی زینت بنے رہے اور بالاخر زہر خورانی نے انکی رہائ کا سامان کیا لیکن جب بھی کسی معصوم کو مہلت ملی رشدو ہدایت اور تعلیم میں کوتاہی نہ کی- علومِ آل محمد کی بےحساب کتابوں کو دنیائے اسلام کے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے دریا برد کردیا یا جلاکر نابود کردیا- امام جعفر صادق علیہ السلا کے شاگرد چار سو سے زائد تھے جنہوں نے مختلف علوم پر سیکڑوں کتابیں لکھیں جن سے مغربی سائنسدانوں نے فیض اٹھایا- امام رضا علیہ السلام کی تصنیفات میں جوہری توانئ اور جوہری بم کے کلیات سمجگائےگئے ہیں جنکا ترجمہ جرمنوں نے کیا اور ان ہی کی مدد سے ایٹمی ہتھیار تیار کئےگئے- آج سے بارہ سو سال قبل انکے نظریات کو ہمارے معصومین نے سمجھ دیا تھا-
 فلاسفہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ حقیقت تک رسائی عقلِ انسانی کےلئے ناممکن ہے اسی کو اصطلاحِ فلسفہ میں سِرّیت کہا گیا ہے- ایک ماہر اور عارفِ سرّیت ہی سرّیت کو سمجھ سکتا ہے- سائنس کا سارا نظام عالمِ مظاہر سے ہے جسے قرآن کی زبان میں عالمِ شہادت کہا گیا ہے جو غیب کا دائرہ ہے جسکو قرآن کی زبان میں غیب قرار دیا جاسکتا ہے اور انسانی ترقی کے باوجود " غیب الغیب" تک رسائی ممکن نہیں-قرآن کا رعوٰی ہے کہ کتابِ ہدایت،  صامت ہو یا ناطق، ان ہی متقیوں کےلئے مشعلِ راہ ہے جنکا غیب پر ایمان ہو- کتنے ہی مشہود ہیں جنکے باطن کی ہمیں اطلاع نہیں کتنے باطن ہیں جنکا علم صرف اللہ اور چہاردہ معصومین کو ہے- ہم بظاہر پھل کو دیکھتے ہیں لیکن اسکی خوشبو اور ذائقہ اسکا باطن ہے- تخم ظاہر ہے مگر درخت کو اگانے والا جوہرِ لطیف اسکے باطن میں ہے جو نظر نہیں آتا یہی علم الیقین اور عین الیقین و حق الیقین اور غیب الیقین کی منازل ہیں-قرآن میں کئ مقامات ایسے ہیں جہاں سرّعیت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں مثلاً حضرت موسٰی کی حضرت خضر سے ملاقات،  پکی ہوئ مچھلی کا دریا میں کعد جانا، خضر کا کشتی میں سوراخ کرنا، بچے کا قتل،  دیوار کی مرمت وغیرہ موسٰی جیسے اولو العزم اور صاحب شریعت پیغمبر کےلئے معمّہ بنے رہے اور صاحبِ شریعت نبی کو علم لدنی کےلئے صاحبِ ولی کے پاس اللہ نے بھیجا اور خضر نے موسٰی پر واصح کردیا کہ جو ععلم آپکے پاس ہے وہ میرے پاس نہیں اور جو علم میرے پاس ہے وہ آپکے پاس نہیں- اسکے علاوہ جلوہء طور،  یدِ بیضا،  عصا کا اژدھا بننا،  بنی اسرائیل کےلئے بارہ چشموں کا جاری ہونا، قارون کا زمین میں دھنس جانا،  دریائ نیل کا عبور کرنا،  فرعون کا ہلاک ہونا،  لاش کا عبرت کےلئ محفوظ رہنا،  جرجیس کا پانچ مرتبہ شہادت پانا،  یونس کا شکم ماہی میں تسبیح پڑھنا،  اصحابِکہف کا غار میں سوجانا،  ابراہیم کا نارِ نمرود میں سلامت رہنا،  اسماعیل کے بجائے دنبہ کا ذبح ہونا،  عیسٰی کا بن باپ پیدا ہونا،  آپکا اندھوں کو بینا کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا،  یہ سب اسرارِ الٰہیہ ہیں- قرآن ایک ہے مگر تفسیروں کی بہتات ہے،  ایک تفسیر لکھے تو دوسرا اس پر کفر کا فتوٰی عائد کرے

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بےتوفیق

امتِ مسلمہ نے راسخون فی العلم کا ایک دروازہ چھوڑا اور دربدری سے دوچار ہوئے،  درِ معصومین ہی سے ہمیں نورِ ہدایت حاصل ہوسکتا ہے جسکی توفیق اھل طریقت حقیقت و معرفت کو نصیب ہوئ- یہ نورِ ہدایت عقلِ نظری ہمیں عطا نہیں کرسکتا اسکے لئے عقلِ باطنی،  قلب و روح مطہرہ اور پاکیزہ و مطہرہ نفس مطلوب ہے-
 شہنشاہ ولایت مولا علی باب مدینتہ العلم ہیں انکے اور اوصیائے معصومین کی تعلیمات،  ارشادات،  فرمودات،  تبلیغات اور احکامات ہی ہمارے علوم معرفت اور غیب کا خزانہ ہیں،  یہی صاحبانِ علمِ لدّنی ہیں،  یہی مشیت اللہ،  حجاب اللہ اور اسماء الحسنٰی ہیں،  یہی مظہرِ صفاتِِ الٰہی ہیں اور مشیت کی کارفرمائ ان ہی کے ذریعے ہوتی ہے- اللہ خالقِ کائنات ہے،  تخلیقِ کائنات میں دو اصول کارفرما ہیں-- تخلیق و تکوین- تخلیق کےلئے اسباب مادی کا ہونا اور ایک مقررہ عمل ضروری ہے تکوین صرف. حکم" کن" کی کارفرمائ ہے- یہ بغیر اسبابِ مادی نفاذِ مشیت ہوجاتا ہے- نگاہِِ ظاہر تخلیق دیکھ اور سمجھ سکتی ہے مگر حقیقتِ تکوین باطن اور رازِ غیب ہے- جسکا علم صرف اللہ کو ہے یا اللہ نے جنہیں عطا کیا ہے- تخلیق و تکوین میں مجاز و حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے- یہ اسرارِ الٰہیہ ہیں جنکی تشریح محتاجِ علمِ لدّنی ہے- ایسے اسرارِ الٰہیہ کی ایک طویل فہرست قرآن سے مرتب ہوسکتی ہے جو عقل و فہم انسان سے بالاتر ہے اسکو صرف وہی سمجھسکتے ہیں جو مظہرِ صفاتِ الٰہی ہیں جن سے مشیت کی کارفرمائ ہوتی ہے جو مجازِ حقیقتِ تکوین ہیں.


ارشاد خداوندی ہے کہ ہم نے انسان کو گیلی مٹّی کے جوہر سے یوں خلق کیا کہ اسکا ایک قطرہ ایک محفوظ جگہ پر ٹپکادیا اور اس بوند کو ایک لوتھڑے کی شکل عطا کردی اور پھر گوشت بنایا اور اس سے ہڈیوں کی تخلیق کی کہ کچھ دنوں میں ایک جیتی جاگتی مخلوق کی صورت گری کردی- سورہء حج کیآیت نمبر5 میں خلقتِ انسانی کا تذکرہ ہے- مذکورہ آیت میں مجاز و حقیقت دونوں واضح ہیں- نطفہ کا قرار زوجین کے تدبیری عمل سے مشروط ہے،  رحمِ مادر میں تخلیقی عمل تقدیری ہے- موت و حیات کا خالق اللہ ہے،  خلقت و ربوبیت تو اربابِ مجاز کے وسیلہ سے ہوئ لیکن موت تکوینی ہے- قبضِ روح کے عامل و فاعل ملک الموت ہیں وہ مجازی مارنے والے ہیں،  ںکا فعل بہ امرِ رب ہے فاعلِ حقیقی اللہ ہے- تخلیقِ آدم کے فاعلِ مجازی کون سے دو ہاتھ ہیں یہ رسول اللہ بتائیں یا خطیبِ منبرِ سلونی؟ - ارساد باری تعالٰی کشتیء نوح کے معاملے میں--- تم ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی. بناؤ- آنکھیں کس کی؟  یقیناً فاعلِ مجازی کی فاعلِ حقیقی کی آنکھیں ہوجائیں تو وہ اللہ باقی نہیں رہے گا، اللہ نے ان آیات میں حقیقت ظاہر کردی اور مجاز کو راز رکھا- ان اسرار کو سمجھنے کےلئے ایمان با الغیب اور علمِ معرفت از روئے قرآن لازم ہوگا- اگر مشیت اللہ فرمائے کہ انا احی و امیت باذن ربّی یعنی میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اپنے رب کی اجازت سے تو اس مجاز پر کیوں چونک پڑیں؟ - اگر ارشاد ہو کہ میں ہوں زمین و آسمان کو خلق کرنے والا تو مشیت اللہ کو بہ اذنِ خدا خالقِ مجازی کیوں نہیں مانتے؟  مولا نے فرمایا کہ میں ہر پیغمبر کے ساتھ مخفی رہا اور پیغمبر آخر الزماں کے ساتھ بظاہر و نیز میں لسان اللہ ہوکر عیسٰی ابن مریم کی زبان سے جھولے میں بات کی تو تعجب کیوں؟   یہ کوئ نئ بات نہیں- ایک نباتی مخلوق یعنی درخت موسٰی کو آواز دے رہا ہے تو قصص30 کی آیت پر ایمان لایاجائے اللہ کو فاعلِ حقیقی و متکلمِ حقیقی سمجھا اور اپنے اصولِ دین میں. یہ عقیدہ راسخ کرلیا کہ وہ متکلم ہے مگر شورٰی52 میں ارشاد باری ہے کہ اللہ تو خود بات نہیں کرتا خود مولا علی نے فرمایا ہے کہ اللہ لا اسمہہ لا جسمہہ ہے- بس مجاز کو حقیقت اور حقیقت کو مجاز فرض کرلینا ہی شرک و کفر ہے-عزرائیل قابلِ پرستش نہیں،  کوہ طور کا درخت رب العالمین نہیں،  یہ فاعلانِ مجازی ہیں اور تابعِ مشیت ہیں- مظہرِ صفاتِ الٰہی وہی انوارِ مقدسہ ہیں جو مرضیء پروردگار یعنی مرضاتہ اللہ ہیں یہی کلمتہ اللہ ہیں جو حقیقتِ کنزِ مخفی کےلئے عالمِ مجاز میں سبب بنے،  یہ وہ اولو الامر ہیں جنکا امر واجب القضاء ہے،  اشارہ کردیں تو شق القمر ہوجائے،  وضو کےلئے آستین الٹیں تو سورج پلٹ آئے،  جب ہاتھ دھو کر کہہ دیں کہ پانی نہیں جواہر ہیں تو پانی جواہر بن جائے،  وہ جب چاہیں مردہ زندہ ہوجائے،  شیرِ قالین کو حکم دیں تو شیرِ قالین حقیقی شیر بن جائے گویا کہ وہ کن فیکن کے مالک و مختار ہیں جب کہہ دیں کہ تو ہوجا تو ہوجاتا ہے- ان انوارِ مقدسہ کے علوئے مرتبت اور اسرارِ الٰہیہ کے ان پردوں کو جو مولائے معرفت نے اٹھائے ہیں سمجھنا چاہیں تو نہج الاسرار کو چشمِ بصیرت سے بنظرِ عمیق مطالعہ کرنا ہوگا-صفاتِ الٰہی کو عین ذات ماننے اور انوارِ مقدسہ کو مظہرِصفات ماننے والا کبھی مشرک ہوہی نہیں سکتا- مولا علی کے کلام میںآیات محکمات و متشابہات دونوں ملیں گی- ارشادِ رسالت ہے کہ یاعلی نہیں پہچانا کسی نے تمکو سوائے میرے اور اللہ کے- احتیاط کا تقاضا سمجھ کر کسی نے چپ سادھ لی کسی نے تصوف کا نام دیا کسی نے وہی کہا جو سابقہ امّتوں نے اپنے انبیاء،  اوصیاء اور اولیاء کے بارے میں کہا تھا- حالانکہ ان کلمات میں عرفانِ الٰی کے متلاشیوں جےلئے وہ منزلیں ملیں گی جنکو طے کرانے کا مولائے کائنات کے سوا کوئ ہادی و رہنما بھی دعوٰی نہیں کرسکتا-ذاتِ واجب الوجود کا عرفان ہم کیا کرسکتے ہیں ذاتِ علی کے عرفان کا ایک قطرہ بھی ہمیں نصیب ہوجائے تو ہم ولی اللہ کہلائیں گے جیسے ہر دور میں مولا علی کے غلامان کو عطا ہوتا رہا ہے جو اولیاء،  عرفاء و صوفیاء شہنشاہِ ولایت کے عطائ ہیں-
حریثِ نورانی میں مولا کا یہ فقرہ ملے گا" میں موسٰی ہوں،  میں عیسٰی ہوں،  اور میں محمّد ہوں جس صورت میں چاہوں خود کو بدل لیتا ہوں،  جس نے مجھے دیکھا ان صورتوں کو دیکھا اور ہم اللہ کا وہ نور ہیں جس میں دائماً کوئ تغّیر واقع نہیں ہوتا،  میں ایک بندہ ہوں بندگانِ خدا سے" اس پورے جملے میں آپ نے اپنی ذاتِ اقدس کے ظاہر و باطن،  مجاز و حقیقت،  اپنے اختیارات اور اپنی عبدیت کی وضاحت فرمادی ہے- آپ عالمِ نور میں اسوقت بھی تھے جب ابو البشر آدم خلق بھی نہ ہوئے تھے، پنجتن پاک کے انوار اولین مخلوق ہیں-
 قرآن کا ایک اور مقام غور طلب ہے کہ روزِ قیامت صور پھونکے جانے کے بعد سب فنا ہوجائیں گے صرف رب ذوالجلال کا چہرہ باقی رہ جائے گا،  اللہ کا نہ جسم ہے نہ کوئ عضو ہے نہ چہرہ و زبان پھر باقی رہنے والا چہرہ کون ہوگا اور سوال وو جواب کرنے والا کون ہوگا؟  قرآن نے مجازی چہرہ،  ہاتھ،  آنکھ،  کان وغیرہ صفات کا ذکر خود سے منسوب کیا ہے مولا اگر" انا خالق السماوات و الارض" نہ فرماتے تو یہ معمّہ ہی رہ جاتا- 
 مولانا سبط الحسن ہنسوی نے منہاج نہج البلاغہ میں تحریر فرمایا کہ بےشک مولا علی کو اس تصوف سے کوئ لگاؤ نہیں جو صوفیانِ شوم کے لباس میں دنیا میں ظاہر ہوا اور دراصل جسکی تاسیس بحیثیت ایک ادارہ اھل بیت رسول کی مخالفت. میں اموی و عباسی حکومتوں کے زیر. سایہ ہوئ اور جس کے دجل و فریب کے مرقع ابن جوزی نے تلبیس ابلیس میں پیش کئے ہیں- سبط الحسن صاحب نے خود اعتراف کرلیا کہ اس تصوف کی شاخ سے مولا علی کا تصوف مختلف و جداگانہ تھا یعنی تصوف کے سلاسل میں دنیا پرستوں نے داخل ہوکر مولا علی کے اسلامی تصوف کا چہرہ مسخ کردیا،  مولانا موصوف کا عہدِ رسالت میں مسجدِ نبوی کے چبوترے پر بیٹھ کر یادِ الٰہی میں مصروف اصحابِ صفّہ کے بارے میں کیا فتوٰی ہے جنکے بارے میں جبریل نے آیت لاکر خوشخبری سنائی تھی کہ ان لوگوں کو جنّت کی بشارت دیجئے جو دن رات اپنے رب کو پکارتے رہتے تھے وہ اصحاب صفہ ظاہری عبادت کے علاوہ باطنی عبادات اذکار،  اشغال،  مراقبے وغیرہ میں مشغول رہتے تھے اور انکے مرشد بذات خود رسول اللہ اور علمِ لدّنی و معرفت کے جانشیں اور خلیفہء باطنی اسوقت مولا علی تھے اور ان اصحابِ صفہ کی باطنی،  روحانی اور عرفانی تربیت کرتے تھے- یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اسلام کے گمراہ اور دنیا پرست مسلکوں اور فرقوں اور صوفیوں کی بے راہ روی،  گمراہی اور مفاد پرستی کی وجہ سے اسلام اور باطنی اسلام معرفت اور تصوف سے انکار کردیا جائے یعنی لاکھوں صوفیاء نے مولا علی کو شہنشاہِ ولایت مان کر انکی سیرت و کردار و تعلیمات پر عمل کرکے،  تصفیہء قلب،  تزکیہءنفس،  خدمتِ خلق دن رات یادِ الٰہی میں بسر کرکے،  وجود کی فنائیت،  قربانیء نفس،  یادِ الٰہی،  رضائے الٰہی اور قربِ الٰہی اور پنجتن پاک کو منبع و محور محبت مان کر سیرتِ آلِ محمد کی پیروی کی سب کے سب گمراہ،  بے دین اور زندیق تھے اور بادشاہوں،  حاکموں،  نوابوں وغیرہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے زکواتہ اور خمس کی رقومات ہتھیانے والے فرقہ در فرقہ اختلافات اور تنازعات بھڑکانے والے علماءظاہر اپنی خود ساختہ روایات کے ذریعے اللہ کے برگزیدہ ولیوں،  صوفیوں اور عارفوں کی سیرت و کردار پر کیچڑ اچھال رہے ہیں- کسی کے گریبان میں جھانکنے سے پہلے اپنا گریبان جھانکنا چاہئیے اور شیشے کے مکان میں خود بیٹھ کر دوسروں کے مکانوں پر پتھراؤ نہیں کرنا چاہئے-
 تصوف کی جو تعریف امام جعفر علیہ السلام نے فرمائ ہے وہ یہ ہے" جو باطنِ رسول پر زندگی بسر کرے وہ صوفی ہے"- باطنِ رسول کیا ہے؟  مولا علی سے بڑھکر کون باطنِ رسول جانتا ہے،  بس الللہ جانے اور علی جانیں؟  ہم اپنے کردار و سیرت کی نگہبانی کریں اور دوسروں کا معاملہ اللہ،  رسول اور علی پر چھوڑ دیں جنکا ہم کلمہ پڑھتے ہیں. راضی انہیں ہونا ہے علماء اعلام،  مراجع اور مجتہدین کو نہیں یہ حضرات پہلے اپنی آخرت و نجات کی فکر کریں اور امت مسلمہ باالخصوص مذہبِ اھل بیت کی گمراہی کا سبب بننے سے گریز کریں کیونکہ باطنِ رسول کو وہی بہتر جانتا ہے جو معدنِ حکمتِ رسول و رازدارِ رسول ہے


نظام الحسینی....... اقتباسات ماخوذ از نہج الاسرار



No comments:

Post a Comment