Sunday 5 March 2017

مولائے کائنات کے مناقب کے چند عرفانی گوشے

مظہرِ صفاتِ الٰہی وجہ اللہ،  لسان اللہ،  ید اللہ،  بصر اللہ،  عین اللہ،  سمیع اللہ،  جنب اللہ،  مشیت اللہ،  نور اللہ،  روح اللہ،  نفس اللہ،  اسد اللہ،  کرم اللہ،  بسم اللہ،  اذن اللہ،  صاحبِ ذوالفقار،  ابو تراب،  ساقیءکوثر،  مولودِ کعبہ اور مولائے کائنات کے مناقب و فضائل سوائے اللہ اور رسول کے کوئ بیان نہیں کرسکتا- علمائے ظاہر مالا کے عرفانی مناقب سے بہت کم واقف ہیں کیونکہ علمِ لدّنی اور معرفتِ الٰہی اللہ تعالٰی کی براہ راست عطا ہے جو اللہ نے موسٰی جیسے کلیم اللہ نبی کو بھی عطا نہیں کیا اور انہیں ولی اللہ خضر کی شاگردی میں بھیجا- علمِ لدنی اللہ نے معراج میں حضور کو بطور تحفہ عطا کیا سینہ بہ سینہ سِّرِ وحدت ہے اور طالبِ حقیقی کو اللہ کی طرف سے بطفیل انوارِ ثقلین حضور اور شاہِ ولایت مولا علی عطا ہوتا ہے- قرآن کے مطابق اللہ ولی رسول ولی اور علی ولی مگر مولاعلی کی سلطنتِ معرفت میں میں انکے عوام اور غلام اولیاء اللہ ہیں جنہیں مولا علی کے روحانی اور نسبی سلسلوں کی بدولت عطیہ، بخشش اور عنایت کے طور پر معرفتِ الٰہی اور چہاردہ معصومین سے نوازا گیا ہے- مولا علی نے اپنے معرفتی خطبات کا ذخیرہ چھوڑا تھا جو نہج الاسرار میں محفوظ رکھے گئے ہیں جن میں مولا نے احدیت،  واحدیت،  وحدانیت کے اسرار و رموز اور باطنی عبادات،  اذکار اور اشغال کا احاطہ کرکے علمائے ظاہر کا منہ کردیا ہے جو اھل طریقت،  حقیقت،  معرفت اور وحدت پو طعنہ زن ہیں،  حقیقت تو یہ ہے کہ معرفت میں امام الفقراء مولا علی،  ام الفقراء حضرت فاطمہ اور شاہ الفقراء حضرت حسین ہیں- مولا علی کا اس سے عظیم عارفانہ جملہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ من عرفہ نفسہہ فقد عرفہ ربہہ یعنی جس نے اپنے نفس/ وجود/ ذات،  ہستی کو پہچانا اس نے رب کو پہچانا اسیلئے جو علمائے ظاہر اپنے وجودی عناصر و اجزاء و انوار سے ناواقف ہونگے تو علمِ لدنی اور معرفت سے انکار عین مصلحت ہے اسیلئے ہر دور میں امتِ مسلمہ کے علماء ظاہر نے بلا تفریق مسالک اور فرقے علمائے باطن اور معرفت کو کمراہ قرار دیکر،  فتوے صادر کرکے شریعت کی پامالی اور خلاف ورزی کا الزام لگاکر کبھی دار پر چڑھوایا،  کبھی کھال کھچوائ اور کبھی قتل کرایا جبکہ حدیث قدسی ہے کہ جو میرے اولیاء سے دشمنی رکھتا ہے تو میری طرف سے اسکے خلاف اعلانِ جنگ ہے- مولا علی نے فرمایا کہ جو ذکر خفی میں مشغول ہے بس وہی زندہ ہے اور جو ذکرِ خفی سے غافل ہے وہ مردہ ہے- اب علمائے ظاہر ذکرِ خفی کی تشریح و توضیح فرمائیں کیونکہ اس راز کی نقاب کشائی صرف چہاردہ معصومین،  ائمہ طاہرین،  صالح اصحاب،  اصحابِ صفّہاور اولیاء اللہ غیبت امامِ زمانہ میں انکے باطنی،  روحانی اور عرفانی پرستاران،  محبان،  عاشقان اور غلامان کی حیثیت سے انکی طرف سے روحانی بیعت لیکر کرسکتے ہیں-
 تاریخِ انسانیت میں آدم سے لیکر آج کیا قیامت تک نسلِ آدم میں سوائے مولا علی کے کوئ شخص ایسا نہیں ہے جس نے کعبتہ اللہ میں جنم لیا ہو اور وہ بھی خداوند تعالٰی کے حکم سے کیونکہ خدائے رب ذوالجلال کا منشاء یہی تھا کہ مصطفٰی کی زینت کو رفاقتِ مرتضٰی ہی سے دوبالا کیا جائے تاکہ حرمِ پاک میں ظہور ہونے والے مولودِ کعبہ کی ابتداء اور انتہاء کاپتہ چل سکے- ربِ کائنات نے ہر دور میں اپنی قدرتِ کاملہ سے وجودِحق کی نشاندہی کی ہے تاکہ انسان معرفت کی راہ پر گامزن ہوکر وحدت الوجود  کے ذریعے اپنے وجود کو پہچان کر اللہ پاک کی سخاوت کا متشکر رہے- درود و سلام محمد اور آِ محمد طاہرین پر جنہوں نے ظلمت اور ظلم کے ادوار میں اپنی اور عزیز و اقارب و اصحاب کی جانوں کا نزرانہ پیش کرکے دینِ مصطفوی کو حیاتِ نو عطا کی اور اصحابِ صالحین اور اولیاء اللہ کو خراجِ تحسین جنہوں نے دنیا پرستی،  کفر پرستی اور نفس پرستی کو ترک کرکے خدا پرستی،  حق پرستی اور عقبٰی پرستی کی راہ اختیار کی-
 قرآن کریم،  صحیح اور مستند احادیث اور تاریخِ اسلام کی روشنی میں صاحبِ معرفت ہی مرتبہءعلی اور عظمتِ علی کو صحیح انداز میں پہچانتے اور جانتے ہیں اسکی اصل وجہ یہی ہے کہ اس معرفت و عشق کے سفر میں جتنے بھی راستے ہیں انکی اصل و حقیقی نشاندہی مولا علی سے ہوئ ہے تصوف اور معرفت کے سارے چودہ سلسلے علی بن ابی طالب کی ذات گرامی پر ختم ہوتے ہیں- اسیلئے صاحبانِ عشق و علمائے باطن حضرات یعنی اولیاء اللہ مرتبہءعلی کو علمائے ظاہر اور مسلکوں اور فرقوں کے رہنماؤں سے زیادہ جانتے ہیں- البتہ جن صاحبانِ علم کو عشق کی دولت یا حق شناسی کی بصیرت اللہ نے عطاکی ہو تو بھی صاحبانِ عشق کی طرح مولائے کائنات جیسی مظہر العجائب جیسی شخصیت کے بحر سے قطرہ حاصل کرسکتے ہیں- سرزمینِ ھند کے ممتاز اھل سنت عالم شاہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب" تفہیماتِ الٰہیہ" میں مولا عل کو معصوم کامل مانا ہے اور فرمایا کی رسول نے اللہ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ حق کو وہیں رکھنا جہاں علی ہوں یہ نہیں فرمایا کہ علی کو وہاں رکھنا جہاں حق ہو- حضور نے علی کو حق کا پابند نہیں بنایا بلکہ حق کو علی کا پابند بنایا- ولیوں نے مولا علی کی رٹ لگائ تو علی کی عنایت اور بخشش سے اولیاء اللہ بن گئے- عقل حیران ہے کہ خود اللہ نے حرمِ کعبہ میں علی کی ولادت کا بندوبست کیسے کیا جبکہ کعبہ پاکیزہ اللہ کا گھر تھا اسلئے آیتِ تطہیر میں وضاحت فرمائ کہ اھلِ بیت کو پاک و طاہر رکھا ہے کوئ رجس و نجس قریب پھٹک بھی نہیں سکتا-عاشقِ صادق کیلئے نامِ علی اسمِ اعظم ہے کیونکہ ولایت،  روحانیت اور اسلامی تصّوف کے سارے چشمے بحرِ علی میں منتہی ہوتے ہیں- اولیاء کرام کی اکثریت کا شجرہء نسب مولاعلی سے ملتا ہے جبکہ روحانی،  باطنی اور عرفانی سلاسل کے تمام شجرے مولاا علی کے مرہونِ منّت ہیں- لہٰذا ہر عاشقِ صادق کےلئے جو راہِ سلوک کا مسافر ہو،  نامِ علی اسمِ اعظم ہے- اس فقیری یا درویشی  کا فقر،  قلندر کی قلندری،  عارف کی عارفیت،  مجذوب کی مجذوبیت اور رندوں کی رندیت اس وقت تک نامکمل ہے جب تک کہ خاک پائے علی کی بو اپنے اندر جذب نہ کرلیں کیونکہ علی ہی شہنشاہ یا شاہِ ولایت ہیں یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ حضور کو اپنے فقر پر ناز تھا اسیلئے فقراء اھلِ بیت کا درجہ روحانیت اور نورانیت میں مشائخِ تصوف سے بلند ہے کیونکہ فقیر لفظ چار حرفی ف+ ق+ ی+ ر ہے یعنی ف سے فنائیتِ ہستی،  ق سے قربانیءنفس،  ی سے یادِ الٰہی اور ر سے ریاضت و عبادت کے ذریعے رضائے الٰہی.... پوری سِّرِ وحدت کا نچوڑ" یادِ صنم،  دیدِ صنم،  ندائے صنم، رضائے صنم اور بقائے صنم ہے-
 خدا نے علی کو اپنا نفس قرار دیکر اور رسول نے اپنا نفس فرماکر علی کے شرفِ سیادت کو بامِ عروج پر پہنچا دیا- جو علی کے فضائل ہیں اور کسی کو نصیب نہیں- رسول اللہ نے آپکو آیت الھدٰی منارتہ الایمان اور امام الاولیاء فرمایا اور ارشاد ہے کہ علی کا دوست میرا دوست اور علی کا دشمن میرا دشمن ہے- بحکم اللہ رسول کا اجرِ رسالت اقرباء یعنی اھلِ بیت سے مودت ہے جو مسلمان حضور کا اجرِ رسالت ادا نہیں کرتا اسکا دین،  ایمان،  اسلام اور عبادات کہاں ہونگی- افسوس صد افسوس!  مسلمان قرآن کو اپنا رہبر، امام،  ہادی اور رہنما ہونے کا دم بھرتے ہیں لیکن قرآن کی ان آیات کو فراموش کردیتے ہیں اور جان بوجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں یہ ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی ہے کہ قرآن حکیم اور ارشادات و احادیث میں جہاں بھی " آلِ محمد" کی فضیلت،  عظمت اور مراتب عالیہ کا ذکر ہے اسکی طرف سے امت مسلمہ کی توجہ ہٹائ جائے تاکہ انکے اپنے مسلک میں خلل پیدا نہ ہوجائے- وہ مسلک یا مذہب یہودیوں،  عیسائیوں اور منافقوں کے اشتراک سے اسلئے معرضِ وجود آیا ہے کہ عظمتِ محمد گھٹ جائے تو آلِ محمد کی فضیلت پر پردہ پڑجائے گا کیونکہ اصل اور حقیقی اسلام تو اھلِ بیت کے دم سے ہے- ان اسلام دشمنوں نے ایسے اشخاص کی حق پسندی کو روکنے کےلئے ان سازشی عناصر کی افواہوں اور سرگوشیوں کے ذریعے" رافضی" ہونے کا امزام لگایا اور اس الزام کو عام کروایا- سورہ شورٰی کے تناظر میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ آلِ محمد کی عظمت کےلئے کیا یہ کم ہے کہ جبتک محمد وآل محمد پر نماز میں درود نہ پڑھا جائے ہماری نمز ہی قبول نہ ہوگی اور نمز باطل ہوجائےگی- امام شافعی پر بھی رافضی کا لیبل لگ گیا انہوں نے ببانگِ دہل اعلان کردیا کہ اگر آلِ محمد کی محبت رافضیت ہے تو دونوں عالم گواہ رہیں کہ شافعی رافضی ہے.

سرزمینِ کشمیر میں سلطان العارفین کے نامور خلیفہ شیخ داؤد خاکی نے مولا علی کے مراتب و عظمت کا کھلے عام اظہار کیا تو یہ رافضیت کا خطاب ان پر بھی چسپاں کیا گیا جنہوں نے برملا فرمایا:

 محبت علی گویم خلق گوید رافضی
پس خدا و جبریل و محمد رافضی
 حوالہ: دستور سالکین

ترجمہ.... میں علی کی محبت میں سرشار ہوا تو لوگوں نے رافضی کہا+ اگر یہی ہے تو خدا،  جبریل اور محمد بھی رافضی 
ہیں-    
کیونکہ خدا،  محمد اور جبریل کو بھی علی سے محبت ہے

کشمیر میں بانیءاسلام مبلغ و مجتہد شاہ ھمدان علی الثانی حضرت میر سید علی ھمدانی نے اپنی دعا میں مولا علی بن ابی طالب سے عرض کیا:
یا علی یک نظرے کُن زے سر صدق و صفا
کہ بجائے نہ رسد بے نظرِ پیر و مرید

 حوالہ چہلِ اسرار
ترجمہ: یا علی آپکی نظرِ عنایت کا طالب ہوں- آپکی نظرِ قلب و بصر میرے لئے کافی ہے کیونکہ اسکے بغیر میری کوئ وقعت نہیں رہے گی- مجھ جیسے مرید کو آپ جیسے پیر کی نظرِ عنایت کافی ہے- مولا علی کی شان میں اپنی منقبت میں میری شاہ کاشانی فرماتے ہیں کہ تخلیقِعلی کیسی ہے:

 نور نبی چھہ علی سرں ربّی چھہ علی
پیرِ عالم رہبر کر یادِ علی علی

ترجمہ: علی نبی کا ہی نور ہے اور یہ نور ہی سِِّرِ الٰہی ہے پس علی. سارے عالم کا رہبر ہے یعنی جس عالم سے باقی عالمین وجود میں آئے- اے عاشق علی کا نام وردِ زبان رکھ کیونکہ علی عین نور ہے یعنی تخلیق علی اللہ کے نور سے ہوئ ہے- اسی تناظر میں احیائے العلوم میں غزالی نے فرمایا ہے:
" باقی لوگ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوئے اور علی مثلِ نور سے پیدا ہوئے اسکے علاوہ خداوند عالم نے نہ صرف علی کے افضل ہونے کی نص فرمائ بلکہ بے مثل ہونے کی بھی نص فرمائ-
 احمد حنبل نے جنگ خندق کا ذکر کیا کہ مولا علی عمرو بن عبدود کے مقابلے کےلئے نکلے تو جبریل وحی لیکر آئے کہ اے محمد ص کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا- حنبل نے صاف کہہ دیا کہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئ ہے- رسول نے فرمایا کہ کُلِ ایمان کُلِ کفر کے مقابلے پر گئے ہیں- بحوالہ: مسندِ احمد بہ روایت جابر بن عبداللہ
راہِ عشق کے رہگزاروں کےلئے خصوصاً اور اہلِ ایمان کےلئے عموماً محبتِ آلِ محمد فرض عین ہے اور علی کی نظرِ عنایت عاشقوں کےلئے حقیقی کامیابی اور منزلِِ مقصود تک پہنچنے کےلئے زادِ راہ اور مشعلِ راہ ہے کیونکہ عالمِ غیب کے بھی رہبر اور رہنما محمد مصطفٰی ہی ہیں اور علی اس رہنما و رہبر کی حجّت اور دلیل ہیں- اسی راز کو اولیاء،  صوفیاء اور عرفاء نے جان لیا اور اس واقفیت و معرفت کے بعد اھلِ معرفت نے علی کو ولایت کی دنیا کا امامِ اوّل اور شہنشاہِ ولایت و معرفت سمجھا،  جانا اور مانا- مولا علی کی روحانیت نے ولادتِ ظاہری سے دوسو سال قبل وجود مثالی میں ظاہر ہوکر سلمان فارسی کو خونخوار شیر کے پنجے سے نجات دلائی.... بحوالہ اقتباس الانوار
چونکہ مولا علی کے عرفانی گوشے خصوصیت سے عاشقین و سالکینِ معرفت کےلئے ہیں اس بناء پر یہ بتانا ضروری ہے کہ عالمِ باطن میں جب تک علی کی ولایت کا اقرار اور اسکے بعد اس پر عمل نہ ہو،  کچھ نہیں حاصل ہوگا وہ علم الیقین کے بحر میں غوطے لگاتا رہیگا ہاتھ کچھ آنے والا نہیں وہ عین الیقین،  حق الیقین،  غیب الیقین اور ھوالیقین کے بحر سے گوہر و صدف حاصل نہیں کرسکتا علی کی ولایت جاننے اور سمجھنے کا راز علی ست محبت و عشق میں ہے- یہ محبتِ علی محبتِ آلِ محمد سے ملزوم ہے،  یہی وجہ ہے کہ تمام اولیائے کاملین نے نے خاکپائے علی کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگایا اور باطن کی دنیا کے خواجگان بن کر اھلِ شریعت اور علمائے ظاہر کی آنکھوں میں آج تک کھٹک رہے ہیں- خواجہ عبید اللہ احرار فرماتے ہیں کہ حضرت رسالت مآب کو حکمِ الٰہی ہوا کہ اسرارِ مرتبہءولایت و توحید جو مقام' لی مع اللہ' ہے آپ کو بلاواسطہ جبریل کے حق تعالٰی سے براہ راست ملے ہیں بلا طلب کسی کو نہ بتائیں- یہ سنّت آج تک مشائخ عظام میں رائج ہے- مرتبہء نبوت کے احکام بواسطہ جبریل لاتے رہے جو وحیء جلی ہے اور بواسطہ صوتِ سرمدی حضور وحیء خفی سے اسرار و رموزِ معرفت سے فیضیاب ہوتے تھے- سفرِ معراج میں اللہ نے تحفتاً علم باطن حضور کو عطا کیا تھا- ایک دن آنحضرت بہت ہی مغموم بیٹھے تھے کہ ہر شخص احکام شریعت دریافت کرتا ہے اور اسرارِ باطن کا کوئ طلبگار نہیں مگر اچانک علی کو القاء ہوا بہ کمال صدق واخلاص آپ نے حضور سے علمِ لدنّی و باطن کی فرمائش کی اور حضور نے خوش ہوکر ساری معرفت عطا کرتے ہوئے مولا کو باطنی،  روحانی اور عرفانی بیعت دی اور تاکید کہ اللہ نے ہدایت کی ہے کہ بغیر صدقِ طلب یہ راز کسی کو نہ بتائیں اور مولا کو اپنا روحانی،  نورانی،  باطنی اور عرفانی خلیفہ اور جانشین بنایا اور فرمایا کہ اے علی!  ولایت میں تم میری مانند ہو کیونکہ میرے نور کے مساوی ٹکڑے ہو چنانچہ یہی راز مولا علی سے فقراء و مشائخ کو سینہ بہ سینہ روحانی شجرے اور بیعت کے ذریعے حاصل ہوا- ان اسرار کی معرفت کےلئے جب طالب یا سالک میدانِ عشق میں قدم رکھتا ہے تو شہنشاہِ ولایت اور امام الولایتمولا علی کے خاکپائے کا سرمہ چشمِ باطن میں لگانا ہوگا یعنی انوارِالٰہی اور وجودِمعرفت سے بہرہ ور ہوسکے گا-
آجکل امت مسلمہ حقیقی عقائد سے دور ہوچکی ہے اور فرقہ پرستی،  مسلک پرستی اور خود پرستی میں مبتلا ہوکر محمد وآلِ محمد کی تعلیمات اور معرفت سے محروم ہوچکی ہے- ایک مخصوص عقائد والے گروہ،  فرقہ،  مسلک اور نام نہاد مذہب کے کے خودساختہ علماء و رہبروں نے اپنے گمراہ کن لٹریچر کے ذریعے ایک ایسے خونیں،  دہشت گرد یزیدی اسلام کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ محمد کے امن و سلامتی والے اسلام کو قصائیوں،  وحشیوں اور درندوں کا مذہب قرار دیا جارہا ہے- ان عقائد میں عقل و فکر،  فطرت و اصلیت کا عمل دخل بہت ہی کم ہے- یہ لوگ اسلام کے لبادے میں منافقت اختیار کئے ہوئے ہیں- سید المرسلین کا خطاب انہیں اور انکے سامراجی و صیہونی آقاؤں کو گوارا نہ تھا اور علی سے بغض کی بناء پر اولادِ ابی طالب اور اولادِ علی انکے نشانے پر حضور کی ظاہری آنکھیں بند ہونے کے بعد ہی سے تھے- اس ناپاک منصوبے اور سازش کےلئے اھلِ یہود اور اھلِ نصارٰی نے نے ان ہی نام نہاد مسلمانوں اور منافقوں کو زر،  زمین و زن کے ذریعے استعمال کیا- انکے اندر بغضِ علی اور بغضِ آلِ محمد پروان چڑھتا گیا اور رواں صدی میں تو نفرت کا آتش فشاں پھٹ پڑا ہے، کربلا میں حسین انکے عزیز و اقارب کو شہید کرنے کے بعد آلِ محمد اور انکے. طرفداروں پر ظمل و ستم کے بعد اب مقاماتِ مقدسہ اور علویوں اور حسینیوں کو نشانہ بنانے،  ولایتِ علی سے منہ موڑنے اور عزاداریء حسین کو مٹانے کی ناپاک کوششیں یہ منافقین کررہے ہیں مقامِ افسوس ہے کہ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل میں چند ضمیر فروش،  زرخرید اور جاہ طلب علماء بھی شریکِ کار ہوگئے ہیں- حضور کی مشہور حدیث پاک ہے کہ یاعلی اگر تمہاری محبت میں سب متحد ہوجاتے تو اللہ جہنّم خلق ہی نہ کرتا- اسی بغضِ علی میں اسلام میں مسلک و فرقے معرضِ وجود میں آئے-

 علی امام من است منم غلامِ علی
ہزار جان گرامی فدا بنامِ علی

 من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ.... حدیث پاک.... نظام الحسینی


No comments:

Post a Comment