Saturday 4 March 2017

محبت، امن اور اتحاد معرفت کا سرچشمہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کی خلقت محبت،  امن و اتحاد کےلئے کی ہے اور جب انسان کو بشری پیکر سے سرفراز نہیں کیا تھا تو کروڑوں سال پیشتر عالم ارواح میں قیامت تک آنے والی ارواح کو معرفتِ الہیٰ کے ذریعے دعوتِ محبت،امن و اتحاد دی تھی مگر دنیا میں آکر احسان فراموش انسانوں کی اکثریت نے وعدہ خلافی کی اور اوصاف حمیدہ ترک کرکے صفات رذیلہ کا شکار ہوگئے حالانکہ اللہ نے تمام انسانوں کی ہدایت اور نجات کےلئے صرف دینِ اسلام کا انتخاب کیا تھا مگر ترقی پزیر زمان و مکان و رجحان کے ساتھ تغیرات کے طوفان میں انسان اپنے اخلاق کے مرکز و محور سے منحرف ہوتا گیا اور ذاتی مفادات کی ترویج و اشاعت کی خاطر علاقوں کی ہوس گیری اور جہانگیری کی دھن میں قوم جِن کی طرح مذہب،  دھرم اور فرقوں کی آڑ میں ظلم و جبر و استبداد،انتہا پسندی اور دہشت انگیزی کو وطیرہ بنالیا اور مذہب اور فرقوں کے نام پر خون کی ہولی پر نازاں ہوگیا انسان- خلقت بشری میں بھی اللہ نے مزاج،  طبیعت،  رجحان اور فطرت کے اعتبار سے عارفانہ طور پر حضرت آدم کی اولادوں کی درجہ بندی کردی،نفس امّارہ عام آدمیوں میں،  نفس لوّامہ و نفس ملحمہ اولیاء، صوفیاء اور عرفاء میں،  نفس مطمئنہ اور نفس رحمانیہ چہاردہ معصومین، پنجتن پاک،  اھلِ بیت،  آلِ محمد،  انبیاء،  مرسلین،  محسنین،  مخلصین،  مصلحین،  صالحین،  صدیقین،  مشاہدین،  شاہدین،  متقیین،  عارفین اور سالکین میں منتقل کرکے انہیں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرکے ہدایت کی ذمہ داری سونپی مگر انسان ظلم و ستم،  وحشت و بربریت،  سفاکیت و حیوانیت کا اس قدر عادی ہوگیا کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں کو قیامت تک مظلومیت کی دہلیز پر لا کھڑا کیا،آدم و ابلیس سے حق و باطل کا تنازعہ شروع ہوکرآدم ہی کے بیٹے ظالم و مظلوم،  قاتل و مقتول ہوئے اور حق و باطل کا یہ معرک میدان کربلا میں حسین و یزید میں حتمیت کو پہونچا جہاں حسین کو انسانیت کی مسیحائ اور علمبرداری کا تاج عطا ہوا اور یزید کے گلے میں قیامت تک کے لئے لعنت کا طوق ڈال دیا گیا، شیعان حسین اور شیعانِ یزید کے درمیان معرکہ آراء تمام نہیں ہوئ فرقوں اور فقیہوں کا دور شروع ہوگیا،  عالمِ اسلام چھہ فقہوں اور مصلّوں میں خارجی عناصر نے تقسیم کردیا-- فقہ جعفریہ، فقہ حنفی،  فقہ مالکی،  فقہ شافعی،  فقہ حنبلی اورآخری فقہ وہابی-- ان فقہوں کے بانی بذات خود دوستداران،  محّبان،  پرستاران اور عاشقان اھل بیت تھے عبد الوہاب نجدی کو چھوڑ کر،  مگر مذکوروں کے شاگردوں اور مقلّدوں نے حکومت کی شہ پر دشمنئ آلِ محمد میں فقہوں میں تغیّرات کے ذریعے امتِ مسلمہ کی اکثریت کو اھلِ بیت سے دور کرادیا جو اصحابِ رسول علی کا دم بھرتے اور بظاہر علی کی مدح سرائی کرتے تھے ان ہی کے شیعہ خارجی اور قاتلان اور دشمنان اھلِ بیت بن گئے،  ایک طرف چار فقہیں،  چار مصّلے الگ الگ مختلف مسائل پیش کررہے تھے دوسری طرف آل محمد کے بارہ ائمّہ اطہار تھے جہاں ایک ہی فقہ،  ایک ہی مصّلیٰ،  محمد سے مہدی تک ایک ہی شریعت،  طریقت،  حقیقت اور معرفت،  ایک ہی طریقہء عبادت،  ایک ہی فلسفہ و نظریہء حیات،  ایک ہی تبلیغ،  ایک ہی صراطِ مستقیم اور ایک ہی منزلِ مقصود و معبود و اخرت-- ان فقہوں کی وجہ سے نہ صرف فرقے عالم وجود میں بلکہ آپس میں اسطرح خون ریزی اور قتل و غارتگری ہوئ کہ تاریخ انسانیت میں فقہوں اور فرقوں کے نام پر لاکھوں جانیں تلف ہوئیں،  آج فرق اتنا ہے کہ یہودیوں،  عیسائیوں،  مشرکوں اور کافروں کے شانہ بشانہ منافقین عالمِ اسلام کے سب سے بڑے خدادوست متحدہ عزادارانِ حسین کی صفیں شکستہ کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں،  صرف محبانِ اھل بیت اور عاشقان حسین نے اسلام کی حقانیت اور بقائیت کا ہمیشہ تحفظ کیا ہے- آج کے نامساعد حالات میں اسلام دشمنوں اور منافقوں کی سرکوبی کی خاطر محب اہل سنت،  اھل تشیع،  اھل طریقت و سلاسل اور عاشقانِ حسین کے متحدہ محاذ کی اشد ضروری ہے محبت،  اتحاد و اخّوت کے ذریعے.... نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment