Saturday 4 March 2017

کہاں وہ کہاں ہم؟

 قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات میں رسول پاک اور معصومین نے اپنی احادیث میں، اولیاء،  صوفیاء اور عرفاء نے اپنے اقوال میں مولا علی علیہ السلام کے جو فضائل،  مناقب اور کمالات کے مشاہدات کرائے ہیں،انکا  احاطہ نورانی،  روحانی اور عرفانی بشر ایک نقطے میں بھی نہیں کرسکتا جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا حامل ہوتا ہے بشرِ محض تو خواب و خیال میں بھی تصّور نہیں کرسکتا- ہمارے نام نہاد اور خود ساختہ شیعہ حضرات گفتار کے غازی نظر آتے ہیں کردار،  سیرت اور اعمال کے غازی سے عاری نظر آتے ہیں کیونکہ جنت میں اھل بیت،  آلِ محمد باالخصوص مولا علی کے ساتھ رہنے کے دعویدار ہوتے ہیں مگر جب کردار،  سیرت اور عمل کی بات آتی ہے تو فوراً لب کشائی کرتے ہیں" کہاں وہ کہاں ہم"-  یہی وجہ ہے کہ مولا نے قنبر سے فرمایا تھا کہ میرے شیعہ ولی صفات ہوتے ہیں اور قرآن و سنت پر عمل کے ساتھ ساتھ ہم سے حقیقی محبت کرتے ہیں،  وہ ہماری محبت میں اتنے سرشار رہتے ہیں کہ انکی موت شہادت کا درجہ رکھتی ہے- میرا عرفانی شعور،  فہم و ادراک بڑھکر آواز دیتا ہے کہ شیعانِ علی اپنا مرتبہ نہیں پہچانتے،  اللہ پاک ابراہیم کو اپنا شیعہ کہتے ہیں اور فخرِ ابراہیم مولا علی ہیں تو شیعانِ علی کو ابراہیم کی شیعیت سے افضل ہونا چاہئے جو شیعہ آلِ محمد اور اھل بیت کی مودت میں ہمہ وقت جان دینے کو تیار رہتے تھے وہی تو اصل شیعانِ علی تھے اور حقیقی معنوں میں مولا علی جی ولایت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ پختہ اور کامل ایمان و عقیدہ رکھتے تھے اور صرف وہی حضور کے جنازے میں شریک تھے اور جنہیں حضور بڑے فخر سے شیعانِ علی کہ کر خطاب فرماتے تھے مثلاً سلمان فارسی،  بلال،  ابوذر غفاری، عمار یاسر، سعید خدری،  مقداد،کمیل،  قنبر،  مالک اشتر،  عبداللہ ابن عباس،  محمد بن ابی بکر،  ابو ایوب انصاری،  میثم تمار اور مختار ثقفی وغیرہ جو اوصاف حمیدہ سے آراستہ اور صفات رذیلہ سے پاک و صاف تھے- اھل بیت اور آلِ محمد جب آیتِ تطہیر کے مصداق تھے جنہیں اللہ نے رجس اور ناپاکی سے پاک رکھا تھا جنکی خلقت نورانی اور روحانی تھی- دجس صرف ظاہری پاکی نہیں بلکہ وجودِ باطن کی بھی پاکیزگی ضروری ہے اسیلئے نفرت،  عداوت،  حسد،  بغض،  کینہ،  عناد،  نفاق،  ضد،  غصّہ،  ہوس،  شہوت،  لالچ،  شک،  غرور وغیرہ رجس اور صفات رذیلہ کے زمرے میں آتے ہیں،  ہم اپنا محاسبہ ایمانداری سے کریں اور غور و فکر کریں کہ کیا واقعی ہم شیعیت کا حق ادا کررہے ہیں؟ عزاداریِ حسین کو رسم سمجھ رہے ہیں جبکہ عزاداری عبادت ہے جس طرح حج،  نماز،  روزہ وغیرہ عبادت ہے اسی طرح عزاداریِ حسین بھی عارفانہ،  عاشقانہ اور والہانہ عبادت ہے.

ہمارے معصومین کا اخلاق،  کردار،  سیرت،  رحمانیت،  رحیمیت،  کریمیت، غفاریت،  انسانیت ، فضائل و مناقب صرف پڑھ کر اور سنکر واہ واہ کرنے کےلئے نہیں بلکہ عمل،  پیروی اور اتباع اور پیروی اور تقلید کےلئے ہے،  ہم نے بس تبّریٰ اور دشنام طرازی کو اپنا وطیرہ بنالیا اور سمجھ لیا ہے کہ تبّریٰ کا مطلب نام لے لے کر دشمنوں پر لعنت بھیجی جائے اور لعنتی امور انجام دئے جائیں،  ہم اپنے گریبان میں بذات خود جھانک نہیں دیکھتے اور بھوم جھوم کر ابلیس اور اسکے مریدوں،  چیلوں،  شاگردوں،  اولادوں اور اسکے استادوں پر لعنت کرکے خوش ہوتے ہیں کہ اللہ اور چہاردہ معصومین اور آلِ محمد کی خوشنودی حاصل کررہے ہیں اور خود اعمال حسنہ و حمیدہ کی جگہ اعمالِ رذیلہ و قبیحہ کی عمل آوری میں مصروف ہیں- ابلیس نے لاکھوں سال کی عبادت کے بعد آدم ے انکار سجدہ سے اللہ کی ایک نافرمانی کی اور تا قیامت راندہء درگاہ ہوگیا اور ہم خود کو اشرف المخلوقات تصّور کرکے رات دن اللہ،  چہاردہ معصومین،  آلِ محمد اور اولیاء اللہ کی حکم عدولی اور نافرمانی کرکے سارا الزام شیطان پر ذال دیتے ہیں اور ابلیس کے نقش قدم پر چلکر ابلیس کو شرمندہ کرنے میں مشغول ہیں اور نازاں ہیں کہ ہم شیعہ ہیں جبکہ اس کائنات میں سب سے مشکل کام شیعانِ اہل بیت و آل محمد بننا ہے،  ہمیں سب سے پہلے شیعان علی و حسین اور شیعانِ معاویہ و یزید ک فرق کی معرفت ہونی چاہئے- تاریخ شاہد ہے کہ مولا کے ایک ممتاز شیعہ کو معاویہ نے چار لاکھ درہم میں خرید کر قرآن کی آیت کی تفسیر بدلواکر عبد الرحمان ابن ملجم کو جنّتی اور نعوذ باللہ مولا کو جہنمی قرار دے دیا،  معاویہ نے ابن عباس جیسے مولا کے چہیتے شاگرد اور مفسرِ قرآن کو بڑی رقم اور دھمکی دیکر خرید لیا،  اھلِ کوفہ کی بےوفائ سبھوں پر عیاں ہے،  جنگ صفین میں مولا لشکر والوں سے جنگ کے لئے آمادہ کرتے اور نام نہاد لشکری شیعہ بہانے تراشتے کہ مولا ابھی بہت سردی ہے مولا ابھی بہت گرمی ہے- جنگ صفین میں ہی جب معاویہ نے شکست سر پر دیکھکر ملعون عمرو بن عاص کے مشورے پر نیزوں پر قرآن بلند کرکے امن کی دہائ دی تو مولا اپنے جعلی شیعوں کو خبردار کرتے رہے کہ لعینِ شام کی مکاری ہے مگر نادان شیعوں نے مولا کی حکم عدولی کی،اھل کوفہ جو مولا کی وفاداری اور محبت کا دم بھرتے تھے اور جان دینے کا کھوکھلا دعویٰ کرتے تھے انکے قول و فعل سے سبھی آگاہ ہیں کہ خوف اور دولت نے کس طرح انک دلو دماغ کو منقلب کردیا تھا،  تبّریٰ کا قرآنی مفہوم اظہار برات ہے یعنی اپنے دشمنوں سے بے اعتنائ،  بےرخی،  بے وقعتی،  بے توجہی نہ کہ چہاردہ معصومین اور آلِ محمد کے ساتھ موازنہ و تقابلہ... میری نظر میں معسومین کے چار درجات اللہ نے مقرر کئے ہیں- درجہ اول میں چہاردہ معصومین،  درجہ دوم میںآلِ محمد مثلاً حضرت عباس،  حضرت زینب وغیرہ،  درجہ سوم انبیاء و مرسلین سوائے حضور صلعم اور درجہ سوم میں مقرّب فرشتے.... اب جو لوگ گنہگاروں،  خطاکاروں،  منافقوں اور ملعونوں سے نام لیکر انکا موازنہ کرتے ہیں تو انکی شہرت ہوتی ہے اور ہمار ے اللہ کے منتخبہ ہادیوں کی توہین ہوتی ہے نیز ان پلیدوں کا نام لینے سے ہماری زبان چالیس دن ناپاک رہتی ہے اور کوئ دعا قبول نہیں ہوتی اسکے بجائے رات دن ہم علی علی،  حسین حسین اور عباس عباس کا ورد کرکے عبادت میں مشغعل رہیں،  ہمارے معصومین دشمنوں،  ظالموں،  قاتلوں،  غاصبوں اور خائنوں پر لعنت کرتے تھے،  اخلاقیات کو ترک نہیں کرتے تھے،  قاتل کو شربت پیش کرتے تھے،  گالیاں دینے والوں کی تواضع کرتے تھے،  قاتلوں خوردو نوش کے علاوہ سواری اور زادِ راہ مہیّا کرتے تھے،  دشمنوں،  منافقوں اور حاکموں کو نیک مشورے دیتے تھے،  خلیفہ اول،  دوم اور سوم کی مدد کرتے تھے انکو ہلاکت سے بچاتے تھے،  خلیفہ سوم کو خوارج سے بچانے کےلئے حسنین اور عباس کو پہرے پر مامور کیا تھا،  ہمیں اپنے معصومین اور آلِ محمد اور اولیاء اللہ کی سیرت و کردار کی اطاعت و اتباع کرنی ہوگی تب ہی ہم انکے تابعدار،  وفادار،  وفاشعار،  عاشق اور حقیقی شیعہ کہلا سکتے ہیں اور اشرف المخلوقات کی مصداق ہوسکتے ہیں.. اللہ کے واسطے اپنا مرتبہ پہچانیں اور خود کو اتنا بلند کردار بنائیں کہ اللہ اور ہمارے معصومین اور ہادی ہم پر فخر کریں کہ ہمارا شیعہ یوں صاحب کردار ہوتا ہے،  ہم جدھر سے گزریں غیر پکار اٹھے دیکھو علی کا شیعہ جارہا ہے بدقسمتی سے ہم خود کو عام آدمی اور عام انسان ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ اللہ اور معصومین نے شیعانِ اھلِ بیت کو ابراہیم جیسا شیعہ گردانا ہے... ہم بس اسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ بس ہم ہی جنّتی ہیں اور اعمال کی منزل آتی ہے تو " کہاں وہ اور کہاں ہم"-

جب بات عمل کی آتی ہے تو خوش فہم،  کم عقل اور بے عمل شیعہ کہتے ہیں" کہاں وہ کہاں ہم" مگر جب بات جنّت میں رہنے کی آتی ہے تو کہتے ہیں" جہاں وہ وہاں ہم"-
 عملی طور پر ہم تولّیٰ اور تبّریٰ کے چکر میں الجھ کر فروعی اور فقہی مسائل کو بہانہ بناکر اصولِ دین اور معصومین اور آلِ محمد کی سیرت اور کردار سے دور ہوتے جارہے ہیں،  دلیل کے طور پر چند نمونے پیش ہیں... مدینہ کا ایک شاعر حضور کی شان میں بڑی گستاخیاں کرتا تھا صحابہ اسے پکڑ کر ایک بورے میں بھر کر حضور کے پاس لائے اور کہا کہ یہ بدزبان ہے حضور نے فرمایا اسکی زبان کاٹ دی جائے جب ایک مشہور صحابی اسکی زبان کاٹنے کےلئے خنجر لیکر بڑھے تو حضور نے منع کردیا دوسرے معروف صحابی بڑھے تو حضور نے انہیں بھی روک دیا تیسرے دنیا پرست صحابی کو بھی حضور نے باز رکھا اور آخرکار مولا علی سے فرمایا تم میری زبان کا فہم و ادراک رکھتے ہو اس شاعر کی زبان کاٹ دو،  علی نے بورالیا قنبر کو آواز دی کہ ناقہ اور دو ہزار درھم لیکر میرے ساتھ میدان چلو،  اصحاب کا ایک جم غفیر لطف کی خاطر مولا کے پیچھے چل پڑا،  مولا نے شاعر کو بورے سے نکالا ناقے پر سوار کیا اور دو ہزار درہم دے کر اسے رخصت کردیا- تمام اصحاب دوڑ کر حضور کے پاس پہونچے اور مولا کی شکایت کی کہ علی نے حکم عدولی اور نافرمانی کی- حضور نے فرمایا کہ صرف علی ہی میری زبان کا عرفان رکھتے ہیں،  انہوں نے وہی کیا جیسا میں چاہتا تھا کچھ دنوں بعد وہی شاعر آکر حضور کے قدموں میں گرپڑا معافی مانگی اور مولا سے کہا مجھے کلمہ پڑھائیے اپنے حسن سلوک نے میری دنیا بدل دی-

 حضور پر ضعیفہ یہودن کے روزانہ کوڑا پھینکنے،  حضور کی اسکی علالت میں مزاج پرسی،  ضعیفہ کے کلمہ پڑھنے کے واقعے سے امت مسلمہ بخوبی واقف ہے- حضرت امام کو ایک مسافر لعن طعن اور دشنام طرازی کررہاتھا مدینے کی گلیوں میں،  مولا حسن گزرے تو اسے اپنے گھر لے آئے اور غسل کا انتظام کیا دستر خوان لگوایا،  عمدہ ضیافت کی پھر سواری منگوائ اور اسے زادراہ دیکر رخصت کرنے لگے تو اسنے اپنے محسن کا نام دریافت کیا تو مولا نے فرمایا میں وہی حسن ہوں جسے تم بازاروں میں گالیاں بک رہے تھے،  اسنے ہاتھوں کو بوسہ دیا کلمہ پڑھ کر داخلِ اسلام ہوگیا- مولا علی کو ضربت لگی سر مبارک شگافتہ ہوگیا ابن ملجم قید کرلیا گیا افطار کے وقت مولا نے حسن سے کہا کہ قاتل کو شربت پیش کریں- مدینے میں امام زین العابدین نے پردیسی کو مہمان بنایا خاطرداری کی سواری مہّیا کی اور زادِ راہ عنایت فرمایا رخصتی کے وقت اس مسافر نے کہا کہ آپ نے میرے بارے میں کچھ پوچھا نہیں مولا نے جواب دیا کہ تو وہی ملعون ہے جس نے کربلا میں میرے بھائ علی اکبر کو بےرحمی سے نیزہ ماز کر انی توڑ دی تھی اسنے کہا کہ سب کچھ جانتے ہوئے آپ نے ایک ظالم،  دشمن اور قاتل کی تواضع کی اور انتقام نہیں لیا،  مولا نے فرمایا وہ تیرا ظرف تھا اور یہ میرا ظرف ہے،  ہم خاندانِ رسالت آل محمد کے چشم و چراغ ظالموں،  قاتلوں،  دشمنوںاور منافقوں سے اپنے نفس کی تسکین کےلئے انتقام نہیں لیتے نہ دشنام طرازی کرتے ہیں بلکہ حسنِ اخلاق سے صراطِ مستقیم دکھاتے ہیں- حضور نے اپنے محسن چچا ھمزہ کے قاتل حبشی کو کلمہ پڑھادیا،  ابوسفیان اور جگر خوارہ ھندہ جان بچانے کےلئے فتح مکّہ کے بعد منافقانہ کلمہ پڑھنے آئے تو حضور نے کوئ بدلہ نہیں لیا کفار قریش جنہوں نے مکّ میں اس قدر اذیّتیں دیں ظلم کے پہاڑ توڑے مگر حضور نے عام معافی دیدی- مولا علی کے چہرہ اقدس پر جب جنگِ خندق میں عمر عبدود نے شکست کھانے کے بعد تھوک دیا تو مولا اسکے سینے سے اتر آئے اور جب نفس پرسکون ہوگیا تو نفس اللہ بنکر اسے راہِ خدا میں قتل کیا اسیلئے جب عمر کی لاش پر آئ تو علی کی دشمن ہوکر بھی اسنے مولا کا قصیدہ پڑھا کہ کتنا شریف اور اعلیٰ ظرف انسان ہے جس نے لاش کی بے حرمتی نہیں کی،  غرضکہ ہمارے پنجتن پاک،  چہاردہ معصومین،  آلِمحمد،  صالح اور محبِ اھل بیت صحابہ،  اولیاء اللہ اور غلامانِ آل محمد بعد کی صدیوں سے آج تک اولیاء،  صوفیاء اور عرفاء نے اسلام کی اشاعت کےلئے تلوار،  طاقت،  اقتدار،  لعن طعن دشنام طرازی کو وسیلہ بناکر تبلیغ،  ترویج و اشاعت نہیں کی بلکہ اخلاق اور سیرت و کردار کو ذریعہ بنایا جو محمد وآلِ محمد کا مقصدِ حیات تھا،  آج یہی وجہ ہے کہ جہاں اسلامی لشکروں نے فتوحات کیں اج وہاں مسلمانوں کا وجود نہیں غوری،  غزنوی، مغل بادشاہوں،  اموی ، عباّسی اور فاطمی خلفاء اور سلاطین کی قبروں پر کوئ فاتحہ خواں نہیں جبکہ محمد و آل محمد،  محبّان،  عاشقان اور غلامانِ پنجتن پاک و آلِ محمد کے روضوں،  درگاہوں،  آستانوں اور مقبروں پر دنیا کے کونے کونے میں با اخلاق،  باکردار،  باعمل اور انسان دوستوں کی تعظیم غیر مسلمین بھی کررہے رہے ہیں،  یہی انسان دوست دراصل شیعہ،  محمدی،  علوی اور حسینی ہیں،  یزیدی کردار اور صفاتِ رذیلہ و قبیحہ کے حامل شیعہء معاویہ و یزید تو ہوسکتے ہیں شیعہء علی و حسین نہیں...... نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment