Sunday 5 March 2017

حیرت انگیز کارنامہ

حیرت انگیز واقعہ ہی معجزہ قرار پاتا ہے- دنیا کی تاریخ میں ایک شہرہ آفاق حیرت انگیز کازنامہ ظہور پزیر ہوا ہے جو نوع انسانی کےلئے سبق آموز ہے- وہ ایک طریقے کا مظاہرہ کہیں ہوا ہے کہ منفی حالات میں مثبت نتائج برآمد کرکے دکھا دئے گئے کہ انتہائ غم کہ جس سے زیادہ خب کا سامان ہو نہیں سکتا اس تاریک حالت کو روشن کرکے دکھایا گیا ہو کہ وہ غمزدہ انسان باطنی مسرت سے انتہائ ہشاش بشاش نظر آیا  جس کو دیکھ کر اسکے دشمن بھی حیرت زدہ رہ گئے- اس مظلوم شخص پر دشمنوں نے تین روز تک پانی بند رکھاحتٰی کہ اسکے ششماہے معصوم پیاسے بچّے کو پانی کے بدلے تیر سے سیراب کیا گیا،  یہ نہیں کہا جاسکتا کہ واقعی کس قدر پیاسا رکھا گیا تاہم پیاس کا ہونا تو مسّلم ہے ایسی حالت میں غذا کا تو تصّور ہی محال ہے- اس نقاہت اور کمزوری کے عالم 71 عزیز،  اقارب و احباب کے لاشے اٹھانے کے باوجود وہ شجاعت ظہور میں آئ جس کے حالات سنکر انسان ششدر اور متحّیر رہ جاتا ہے- اس شخص کو دشمنوں کے لشکر نے بظاہر شکست خوردہ قرار دیا اور انتہائ ذلیل کرنے کی ناپاک کوشش کی لیکن وہ شکست و ذلّت فتحیابی،  کامرانی اور قیامت تک عالمگیری شہرت،  عظمت اورفضیلت میں تبدیل ہوگئ- اسطرں منفی حالات میں مثبت نتائج عملی طور پر پیدا کرکے مظاہرہ کردیاگیا کہ کربلا مقامِ عبرت اور اغراض و مقاصد کےلئے ایک لازوال سبق ہے - ایک بالکل عجیب بات بھی مشاہدے میں آگئ کہ واقعہء کربلا کو معجزے سے بالکل بری رکھا گیا ہے- ہمیشہ سے ہوتا تو یہی رہا ہے کہ جتنے انبیاء،  مرسلین و اولیآء و عرفاء ہدایت کےلئے دنیا میں آئے اپنی روحانیت کی دلیل معجزات کے ذریعے پیش کی لیکن کربلا کے مظاہرے نے معجزات سے قطی درگزر کرتے ہوئے منفی حالات میں مثبت نتائج برآمد کرنے کا باطنی،  نورانی،  روحانی اور عرفانی سبق دیا ہے جو بالکل انوکھی، منفرد اور عدیم المثال روحانی تعلیم ہے یعنی یہ کہ اگر بالکل سچائ اور حقّانیت سے راضی بہ رضائے الٰہی ہوجائے جو سیّد الشہداء امام عالی مقام مولا حسین کا آخری وقت جملہ زبانِ اقدس سے برآمد ہوا" اِنّا للاہ و انا الیہ راجعون" یعنی حقّانیت سے خدا کی مرضی اختیار کرلینے میں ہے یہاں تک کہ اللہ کو بھی کہنا پڑا کہ اے نفس مطمئنہ پلٹ آ. اپنے رب کی جانب،  تو مجھ سے راضی میں تجھ سے راضی- ثابت ہوا کہ انسان کا نفس کلیّہ الٰہیہ فعال ہوجاتا ہے اور اسکا یہی فعال ہونا اور نیزے پر بلند سرِ بریدہ سے تلاوتِ قرآن کرنا ہی روحانیت ہے- جس سی منفی حالات میں مثبت نتائج برآمد کئے جاسکتے ہیں-
 یہ تعلیم نوع انسانی کےلئے نہایت قیمتی اور انمول ہے جو ہر فرد بشر اختیار کرنے کا بہ عنایتِ خداوندی متحمّل ہوسکتا ہے برخلاف اسکے معجزات یہ کشف و کرامات صرف انبیاء اور اولیاء کی روحانیت کے ثبوت اور دلیل کےلئے ہوتے ہیں لیکن عوام کو ان سے کوئ فائدہ نہیں ہوسکتا سوائے اسکے کہ انکو بلند پایہ تصور کرتے ہوئے انکی ہدایت پر عمل کیا جائے لیکن حسینی بالکل انوکھی اور منفرد ہے جس پر ہر فرد عمل کرسکتا ہے وہ یہ کہ سچاّائ اور حقّانیت سے خدا کی مرضی اختیار کی جائے اور بس یہ دعا کی جائے کہ تیری مرضی پر عمل کرنے میں  ہم کو مدد دی جائے اور اس زندگی کے ڈدامے میں انسان کا جو رول قدرت نے قرار دیا ہے خواہ کیسے ہی مصائب،  مشکلات اور آفات ہوں،  جسکی اعلٰی ترین مثال کربلا ہے، اس رول کو ادا کرنے میں انسان اقارب و اصحابِ حسین کے اقوال،  افعال،  اعمال،  احوال،  تعلیمات،  تفکرات،  خیالات اور جذبات کو مشعلِ راہ بناکر باطنیت،  بورانیت،  روحانیت اور عرفانیت کے بلند ترین مقاصد حاصل کرسکتا ہے..... یہ کہکر دامن نہ چھڑائے کہ" کہاں وہ اور کہاں ہم"......نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment