Sunday 5 March 2017

امّتِ محمّدیہ کے بس دو فرقے ہیں

حقیقی معنوں میں امّتِ محمدیہ یا امّتِ مسلمہ میں دو ہی فرقے ہیں شرعی اسلام میں ایک فرقہ وہ ہے جو حضور صلعم کی تین شہرہ آفاق احادیث کو مشعلِ راہ بناکر آخرت سنوارنے کو اپنا نصب العین تصّور کرکے عمل پیرا ہے:----


* میرے اھلِ بیت کی مثال کشتیءنوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے دور. ہوا گمراہ ہوکر غرقاب ہوگیا  فرقہءحق وہ ہے جو سفینہء اھلِ بیت پر سوار ہوا اور فرق ہائے باطل وہ ہیں جو اھلِبیت کے سفینے سے فرار یا دور ہوئے
* میں امّت میں دو گرانقدر برابر وزن کی چیزیں قرآن یعنی کتاب اللہ اور اھلِ بیت عترت یعنی وارثان و معلّمانِ قرآن چھوڑ جارہا ہوں جو ان دونوں کو ساتھ رکھیں گے کبھی گمراہ نہ ہونگے حتٰی کہ حوضِ کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے اور جو مسلمان دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑ دیگا گمراہ ہوکر جہنّم کو اپنا ٹھکانا بنالےگا یعنی قرآن اور اھلِ بیت کو ہم رتبہ و ہم درجہ قرار دینے والا فرقہء ناجیہ ہے اور کسی ایک کو ترک کرنے والا فرقہءناریہ میں شمار ہوگا- مقام افسوس اور عبرت ہے کہ رحمت العالمین کے ظاہری پردہ فرمانے سے قبل ہی حدیثِ رسول سے بغاوت کرکے دشمنیءاھلِ بیت میں اعلان کردیا گیا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے جبکہ بعدِ وفاتِ رسول اصحابِ رسول کےلئے قرآن کافی نہیں ہوا اور اکابرین کو درِ اھلِ بیت پر دینی،  شرعی،  فروعی اور فقہی مسائل کےلئے بار بار رجوع کرنا پڑا ایسے موقع پر اللہ کے منتخب ھادی انہیں گمراہی کے بجائے صراطِ مستقیم دکھاتے اور چلاتے رہے اور مشکل کشائ اور حاجت روائی کرتے رہے،  رسول کو اپنا جیسا بشر سمجھنے والے ہوتے تو خلفائے وقت سے بدلہ لینے کےلئے گمراہ اور بے دین کردیتے مگر ائّمہ اطہار نے ان پر ہمیشہ رحمتوں،  برکتوں،  عنایتوں،  شفقتوں، سخاوتوں اور فیّاضیوں کی بارش کرکے دینِ حقّانیہ کو محفوظ رکھ کر پروان چڑھایا نیز اپنے زرّیں مشوروں سے نوازا کیونکہ رب العالمین کے رحمت العالمین نے مولائے کائنات کو صبر و ضبط و تحمّل کی وصّیت کی تھی تاکہ ظاہری خلافت کےلئے امّت فرقوں میں نہ منقسم ہو جائے- اسطرح وفاتِ رسول کے بعد امّت محمدیہ دو فرقوں امامت اور ظاہری خلافت میں منقسم ہوگئ ایک فرقہ غدیری اصحاب اور دوسرا فرقہ ثقیفائ اصحاب کی صورت میں نمودار ہوا اور حضور کے غدیری اعلان اور خطبے کو نظر انداز اور مسترد کردیا گیا جبکہ حضور نے وفات سے قبل بارہ جانشینوں اور خلفاء راشدہ کے نام امام علی سے لیکر امام مہدی تک بتادیا تھا اور ایک موقع پر یہ بھی وضاحت فرمادی تھی کہ بارہ کے بارہ قریشی اور ہاشمی ہونگے اور امامت نسلِ فاطمہ سے بذریعہ نسلِ حسین میں رہے گی مگر امت جمہوریت کے جذبے سے سرشار تھی اور اقوال،  افعال، اعمال،  احوال اور. احکامِ رسول کو فراموش کرکے امت کو غدیری اور ثقیفائ محاذوں پر لا کھڑا کیا گیا
* االوداعی حج کے موقع پر غدیرِ خُم میں دین مکمل ہونے،  اللہ کے راضی ہونے اور نعمتوں کے تمام ہونے اور علی کی ولایت کے اعلان اور" من کُنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ" تقریراً اور تصویراً قرار دینے کے ساتھ حضور نے فرمایا کہ آیتِ موّدت کے تحت بحکمِ الٰہی میں 23 سالہ کار رسالت کا اجر طلب کرتا ہوں- ایک لاکھ 24 ہزار صحابیوں اور حاجیوں نے لبیّک کہا اور حضور نے اھلِ بیت کی محبت اور مودت کو اجرِ رسالت قرار دیا مگر لوگوں نے دو ماہ کے اندر اھلِ بیت کی حق تلفی کرکے خوب اجرِ رسالت ادا کیا اور اس وقت سے آج تک اور امام مہدی کے ظہور تک اجرِ رسالت ادا نہ کرنے کی گویا قسم کھا رکھی ہے- اس طرح دو فرقے وہی برقرار رہے یعنی ایک اجرِ رسالت ادا کرنے والا یعنی مذہبِ اھلِ بیت پر عمل کرنے والافرقہ اور دوسرا اھلِ  بیت سے دور رہ کر اجرِ رسالت ادا نہ کرنے والا فرقہ.. اس شرعی مسئلے سے ساری امّتِ مسلمہ واقف ہے کہ درزی کو سلائ کی اجرت دئے بغیر ااور مزدور کا پسینہ خشک ہونے تک اگر اجرت نہ دی جائے تو اللہ کو عبادات قبول نہیں تو جو شخص اپنے رسول کو اجرِ رسالت ادا نہیں کرے گا اسکی عبادات اللہ پاک کس طرح قبول فرمائیں گے
اب نظر کرتے ہیں حضور کی حدیث مبارک کی طرف کہ میری امّت میں 73 فرقے ہونگے جن میں72 جہنمّی اور ایک ناجی اور جنّتی ہوگا- اسی حدیث کو معیار بناکر ہر فرقہ خود کو جنّتی اور دوسروں کو جہّنمی قرار دیتا ہے جبکہ مندرجہ بالا احادیث کی روشنی. میں دو ہی فرقے ثابت ہیں حق و باطل،  قاتل و مقتول،  ظالم و مظلوم،  صادق و کاذب،  امین و خائن،  مومن و منفق،  سفینہءاھلِ بیت پر سوار اور سفینہءاھلِ بیت سے فرار.. 
دراصل حدیثِ مقدّسہ کا باطنی،  روحانی اور عرفانی مطلب علامتی ہے جو اھلِ معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں جو لوگ حضور کی اس حدیث سے واقف ہیں کہ حسد ایمان کو اس طرح کھجاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یا دیمک لکڑی کو تو لمحہءفکریہ ہے کہ جب ایمان ہی نہیں بچے گا تو عبادات واجبی و نفلی کس کام کی؟  حضور نے اھلِ شعور کو علامتی باطنی عرفانی بشارت دی ہے کہ جو فرقہ حسد سے دور اور پاک ہوگا وہی ناجی اور جنّتی ہوگا اور جو فرقے حسد میں. مبتلا ہونگے ناری و جہنّمی ہونگے- حروفِ ابجد کے حساب سے " حسد " کے اعداد " 72" ہیں یعنی حسد رکھنے والے مسلمان خواہ کسی بھی فرقے سے تعلّق رکھتے ہونگے جہنّمی ہیں اس طرح طاطنی طور بھی دو ہی فرقے ہیں... حسد نہ رکھنے والے اور حسد رکھنے والے.... 
آخر میں،  میں امّت مسلمہ کے تمام فرقوں کو حسد سے پاک رہ کر اھلِ بیت کی کشتی پر سوار ہوکر جنّت کی حضور کی بشارت کی دعوت دیتے ہوئے آخرت اور عاقبت سنوارنے کی پرخلوص دعوت دیتا ہوں اور فرقوں،  مسلکوں،  طبقوں ، فقہوں اور گروہوں سے بالاتر ہوکر خود کو صرف اور صرف " محمّدی" بننے،  سمجھنے اور ماننے کی التجا کرتا ہوں کیونکہ اللہ ایک،  رسول ایک،  امام ہر دور میں ایک صفاتی محمّدیعنی علی سے مہدی تک،  قرآن ایک،  بیت اللہ ایک،  شریعت،  طریقت،  حقیقت،  معرفت اور وحدت ایک،  سنت و سیرتِ محمد و آلِ محمد ایک،  فقہءمحمدیہ تا مہدیہ ایک،  ذریعہءنجات اھلِ بیت اور سفینہءنجات اور مصباحِ ہدایت حسین.... منافقوں کو چھوڑ کر سارے مسلمان حسین کو دین،  دین پناہ، نجات دہندہ اور مسیحائے انسانیت مانتے ہیں لہٰذا سبھی  بانیءاسلام محمد صلعم،  محافظِ اسلام مولا علی اور مسیحائے اسلام مولا حسین کی محبت میں متّحد ہوکر حسینیت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مشرکوں،  کافروِں، منافقوں اور دشمنوں کو دندان شکن جواب دے کر اسلام کو دہشت گردوں کا نہیں امن سلامتی اتحاد محبت و اخّوت کا مذہب ثابت کریں.... آمین
* نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment