Sunday 5 March 2017

19 ویں صدی کے عظیم المرتبت ولیء کامل حاجی سیّد وارث علی شاہ الحسینی و الموسوی

اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنّی اور سِّرِ وحدت سے اپنے مخصوص انبیاء،  مرسلین،  پنجتن پاک،  اھلِ بیت،  چہاردہ معصومین،  آلِ محمّد اور انکے وارثین اوصیاء،  عرفاء،  اولیاء اور صوفیاء کو سرفراز فرمایا ہے اور قرآن پاک،  حدیث پاک،  نہج البلاغہ،  فرموداتِ ائمّہ اطہار کے بعد اگر کسی کلام کو عظمت و فضیلت و اہمیت حاصل ہے تو وہ اولیاء اللہ کے کلام کو کیونکہ انکا کلام ظاہری تصّنع سے پاک عشقِ الہیٰ میں ڈوبا ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے ان حضراتِ اولیاء اللہ کو علمِ لدنّی و معرت وروحانیت سے نواز تے ہوئے انہیں خدمتِ خلق اور حقوق العباد کا مشعل بردار قرار دیا ہے- ایسی نادر اور شاہکار ہستیوں میں ایک نام سر فہرست 19 ویں صدی کے ولیءکامل حضرت سید وارث علی شاہ الحسینی و الموسوی کا ہے جنہیں انکے کروڑوں مرید اور لاکھوں لاکھ طالب و معتقدین عرف عام میں" وارث پاک" کہتے ہیں- اللہ ذوالجلال نے اس صفحہءہستی پر چہاردہ معصومین،  آلِ محمد،  صالح اور خدا شناس اصحاب پنجتن پاک کے بعد ہر دور میں منتخب اور نامزد امام زمانہ کی متابعت میں ایسے ایسے برگزیدہ بندوں کو جلوہ افروز فرمایا ہے جنکا نام نامی اسم گرامی تادم کائنات روشن اور درخشان ستاروں کی طرح منّور رہے گا- ایسی ایک ممتاز اور منفرد ہستی،  جسکا تعلق براہ راست آلِ محمد صلعم سے ہے،  سیّد العاشقین، معراج الاولیاء،  مخدوم الاصفیاء حقیقتِ خضرِ راہ طریقت،  واقفِ اسرارِ حقیقت اور تاجدارِ معرفت،  اشرف العالمین شہنشاہِ دیویٰ شریف حضرت الحاج و حافظ سیّد وارث علی شاہ الحسینی الموسوی کی ذاتِ اقدس محتاجِ تعارف نہیں-آپکی ذات گرامی سے ضمنی سلسلہءوارثیہ منسوب ہے جو سلاسل قادریہ اور چشتیہ کا امتزاج ہے اور جس کے ذریعے مذہبی،  باطنی،  روحانی،  عرفانی اور انسانی فیوض و برکات کا سلسلہ جاری و ساری ہے-آپکی زندگی پیرویء سنّت محمدی اور آلِ محمدی کا نادر اور عدیم المثال نمونہ تھی- آپکے افکارِ عالیہ قرآن،  احادیث اور تعلیماتِ چہاردہ معصومین کی تفسیر ہیں-
 آپکی ولادت باسعادت اتر پردیش ریاستِ ھند کے شہر بارہ بنکی کے قصبہ دیویٰ شریف میں یکم رمضان المبارک 1238 ھ اور وصال یکم صفر 1323 ھ بمطابق 7 اپریل 1905 ء ہے- دیویٰ شریف میں اس وقت آپکے دلکش عالیشان مزار مبارک سے فیضِ عام جاری ہے 
آپکے والد بزرگوار کا نام نامی حافظ حکیم سید قربان علی شاہ اور والدہ کا نام سیدہ بی بی سکینہ ہے- آپکے ظاہری مرشد حقیقی بہنوئ سید خادم علی ہیں، جنکا مزار گولہ گنج لکھنؤ میں واقع ہے،  جو قادری،  چشتی اور نقشبندی سلاسل ککے خلیفہ تھے- وارث پاک انکے چہیتے اور ہردلعزیز خلیفہ اور جانشیں تھے جو قادری اور چشتی سلسلوں کو مشعلِ راہ بنائے ہوئے تھے- وارث پاک کو روحانی بیعت امام الائمّہ،  شہنشاہِ ولایت،  سید الفقراء،  وجہ اللہ،  لسان اللہ،  ید اللہ،  نفس اللہ،  اذن اللہ،  جنب اللہ،  سمیع اللہ،  بصر اللہ،  عین اللہ،  نور اللہ،  روح اللہ،  اسد اللہ،  کرم اللہ،  مشیت اللہ،  سیف اللہ،صاحبِ ذوالفقار،  ابو تراب،  مولائے کائنات،  امام العارفین،  امام المتقیین،  امام الصادقین،  امام المحسنین،  امام المخلصین حضرت علی بن ابو طالب نے روبرو عطا کی تھی- انکا شجرہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی 26 ویں پشت میں ہے اور 7 ویں امام حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام کی نسل سے نیشاپور،  ایران کے نجیب الطرفین سادات و ذی الفضائل و برکات کے خاندان میں جاہ و جلال فرمایا اور تمام عمر خاص و عام کو محبتِ شاہدِ حقیقی کی ہدایت فرمائ-آپ بطنِ مادر سے ولی پیدا ہوئے تھے- آپکی کتابِ عمر کا دیباچہ عشقِ الہیٰ کے عنوان سے شروع ہوتا ہے اور خاتمہءکتاب پر بقا فی الذات کی مہر لگی ہوئ تھی یہی وجہ ہے کہ قدرتاً آپ کا نام نامی بھی اللہ کے صفاتی نام وارث سے منسوب ہوا جس سے آپ واصل ہونے والے تھے یعنی" وارث"-
 وارث پاک شبستانِ مصطفیٰ کی شمع،  گلستانِرتضیٰ کے گلاب،  نیستانِ عشق کے شیر ببر اور تسلیم و رضا کے تاجدار ہیں- آپ نے اپنی ساری زندگی محبتِ حقیقی کی تبلیغ میں گزاری- انہوں نے بتایا کہ مودتِ اھل بیت اور معرفتِ الٰہی کیا ہے دراصل خدمتِ خلق ہی خدمت خدا ہے اور محبت کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کہلایا-
 سات سال کی عمر میں آپ قرآن کریم حفظ فرماچکے تھے اور صرف 14 سال کی عمر میں اھلِ طریقت کے دستور کے مطابق آپ کی دستار بندی کی گئ اور اسی وقت سے آپ کی ذات بابرکات سے سلسلہءرشد و ہدایت بھی جاری ہوگیا- 15 سال کی عمر میں دربارِ خواجہ غریب نواز میں میں حاضر ہوئے ت و جوشِ ادب میں جوتا پہننا بھی ترک کردیا- حج کےلئے احرام جو باندھا تو ہمیشہ کے لئے دنیاوی لباس ہی ترک فرمادیا- جّد اعلٰی مولا علی کے روضہءاقدس پر حاضر ہوئے تو صفتِ بوترابی کے اثر سے زندگی بھر کےلئے فرشِ خاک کو اپنا بستر بنالیا- کربلا ئے معلّٰی پہونچے تو تشنہ لب شہداء کے غم میں ہمیشہ کےلئے بھوک اور پیاس کو اپنا توشہ بنالیا-
آپکی نورانی شخصیت میں وہ مقناطیسی اثرات تھے کہ سارا زمانہ آپ کی طرف کھنچا چلا آتا تھا- آپکی صورت کو جس نے ایک بار دیکھا وہ ہمیشہ کےلئے فریفتہ اور گرویدہ ہوگیا- عرب کی سیاحت کے دوران خود اہلِ عرب آپکے مرید ہوئے، ترکی پہنچے تو سلطان عبد الحمید خاں مع اہل و عیال آپ.کی غلامی میں آگئے، یوروپ کی سیرو سیاحت میں جرمنی کے شہزادہ بسمارک نے آپکی میزبانی کے فرائض انجام دئے- شہزادہ سرویا آپکا مرید ہوا اور شہزادہ ملان معتقد ہوکر آپکا مطیع و فرمانبردار بنا- اسی طرح بارہ سال تک مسلسل آپ عرب و حجاز، ایران و عراق، فلسطین و شام، مصرو ترکی، روس و جرمنی، اور تمام یوروپ میں روحانیت نورانیت کا تبلیغی دورہ کرتے رہے- آپ نے اسلام کی بلند ترین روحانی، باطنی اور عرفانی تعلیمات کو ساری دنیا میں عام کیا اور عشقِ الٰہی کی لامحدود و لافانی اقدار کو اپنی بے پناہ قوّتِ باطنی سے دلوں میں جاگزیں فرمایا- آپکی ساری زندگی غمِ محبت سے شعلہ زار اور عشقِ الٰہی سے سرشار تھی- زندگی بھر آپکا کوئ لمحہ ذکرِ الٰہی اور یادِ الٰہی سے خالی نہیں گیا، آخر وقتِ وصال تک ایک وقت کی نماز کو کئ کئ بار ادا فرمایا- احرام کو کفن اور زمین کو قبر کی منزل سمجھا چنانچہ موتو اقبل ان موتو کی سچّی تصویر بنے رہے- زندگی بھر راحت کا سامان مہیا نہیں کیا- حتٰی کہ کبھی کسی پلنگ، مسہری، تخت، چوکی، کوچ، کرسی اور مونڈھے وغیرہ پر آرام نہ فرمایا نہ کبھی مسند لگائ نہ سر کے نیچے کبھی تکیہ رکھا نہ تمام عمر آسودہ ہوکر کوئ غذا کھائ- تسلیم و رضا کی ایسی عادت ڈالی تھی کہ اپنی بڑی سی بڑی تکلیف کا کبھی اظہار تک نہ کیا- نہ ہی کسی کا شکر ادا کیا نہ کسی سے شکوہ و شکایت کی- صبر، ضبط، تحّمل و توّکل کو اس درجہ اپنالیا تھا کہ سردی و گرمی کا احساس ہی جاتا رہا- آپ نے کبھی خود کو کسی سے برتر نہ سمجھا اور نہ ہی کسی غیر کو اپنے سے کمتر جانا- سونے چاندی کو کبھی آنکھ اٹھاکر نہ دیکھا، روپئے پیسے کو کبھی ہاتھ نہ لگایا- تمام عمر کسی سے کچھ نہ مانگا اور اپنے در سے کسی کو خالی ہاتھ جانے نہ دیا- پابندیءوضع کا یہ عالم تھا کہ جو بات ایک بار آپ ست سرزد ہوگئ وہی ہمیشہ کےلئے آپکی مستقل عادت بن گئ- چہرہءانور جیسا روشنی میں نظر آتا تھا ویسا ہی اندھیرے میں صاف و شفاش دیکھ لیا جاتا تھا- پائے مبارک کبھی خاک یا کیچڑ میں آلودہ نہیں پائے گئے- تمام عمر دنیا بھر کا پیدل سفر کرنے کے باوجود تلوے نرم و نازک تھے- ہر مجمع میں آپ سرفراز و بلند نظر آتے تھے- حسن و جمال کا یہ عالم تگا کہ دیکھنے والا ششدر اور متحّیر رہ جاتا تھا-
آپکی عظمت کا چرچا بر صغیر کے علاوہ ایشیا، افریقہ، امریکہ اور یوروپ کے باشندوں تک پھیلا ہواتھا، تقریباً ڈیڑھ لاکھ غیرمسلموں کو آپ نے مشرف بہ اسلام کیا اور ہزاروں مشرکوں کو آپ نے موحد بنادیا- آپکے یہاں ذات پات، رنگ و نسل، مذہب و قوم کی کوئ تفریق نہ تھی- دربارِ وارث میں راجوں، مہاراجوں، ریاست کے والیوں، نوابوں، سرکاری عہدہ داروں اور رئیسوں کی صف میں غریبوں اور کمتروں کو جگہ ملتی تھی- آپ کا مسلک و مشرب" عشقِ الٰہی" اور پیغام" محبّت" تھا. سرکار عالم پناہ کی ذات اقدس عامتہ المسلمین ہی نہیں بلکہ عوام الناس کے لئے آئین کے ہدایت اور مشعلِ راہ ہے- انکی زندگی کے ہر پہلو سے شریعت،  طریقت،  حقیقت و معرفت کا درس مل رہا ہے- کچھ لوگ لاعلمی اور نام نہاد وارثیوں کی بے عملی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ حضرت وارث. مجذوب تھے اسلئے شریعت کے پابند نہیں تھے- یہ الزام قطعی غلط اور لغو ہے-  آپکے اقوال،  افعال، اعمال و احوال عین شریعت کے آئینہ دار تھے- آپ نے ہمیشہ شرعی احکامات کا احترام کیا ہے- اب اگر کوئ شخص سلسلہءوارثیہ میں شرف بیعت حاصل کرنے کے بعد شریعت سے ہٹ کر زندگی گزارے تو یہ وارث پاک کی تعلیم نہیں بلکہ اسکا ذاتی فعل ہے- آج اگر مسلمان شریعت کے ارکان پر عمل نہ کرے تو یہ کیا قرآن کی تعلیم ہے؟  اگر مسلمان شراب خواری کرتا ہے تو کیا اسلام موردِ الزام ہوگا،  اگر کوئ شیعہ یزیدی کردار کا حامل ہے تو شیعیت پر انگلی اٹھانا جائز ہے؟  اگر کوئ صوفی خدا پرستی ترک کرکے دنیا پرستی،  نفس پرستی اور ہوس پرستی میں ملوث ہے تو تصؤف،  اھلِ طریقت اور اھلِ سلاسل کو گمراہ اور زندیق کہنا یا تمام اولیاء اور صوفیاء کو کافر و مشرک قرار دینا کیا انصاف ہے؟  کیا انہوں نے اسلامی شریعت اور سیرت محمد و آلِ محمد پر عمل درآمد کرتے ہوئے شاہِ ولایت مولا علی اورآلِ محمد کے باطنی،  روحانی،  نورانی اور عرفانی علوم کی ترویج و اشاعت کرکے زندیقیت اور انحرافِ دین کیا ہے؟  کیا کچھ جعلی،  ڈھونگی،  نقلی،  نمائشی،  دنیاوی اور لالچی صوفیوں کی وجہ سے عرفاء،  صوفیاء اور اولیاء کو زندیق کہنا جائز ہے جنہوں نے ساری زندگی یادِ الٰہی،  سیرت و سنت ِ آلِ محمد کی پیروی اور خدمتِ خلق میں صرف کردی اور پنجتن پاک اور من کنت مولاہ فھٰزا علی مولاہ کو اپنا منبع محور اور مقصد و ملزوم عقیدہ رکھا.... افسوس ہر دور کے علماء ظاہر اپنے عیوب اور دنیا پرستی پر پردہ ڈالنے کےلئے اھلِ معرفت سے انتقام لیتے رہے،  سولی پر چڑھواتے رہے،  کھال کھچواتے رہے،  گردن تن سے جدا کراتے رہے،  قتل کے فتوے دیتے رہے مگر یہ شیعیان اور محبانِ اھلِ بیت علوی اور حسینی روش سے دستبردار نہیں ہوئے اور معرفت کی شمع فروزاں رکھی تمام مخالفتوں،  عداوتوں اور مخاصمتوں کے باوجود.... حبیبِ رب العالمین،  جانِ رحمتہ العالمین،  شانِِ مولائے کائنات، رہبر ِشریعت،  مرشدِ طریقت،  رہنمائے حقیقت اور ھادیءمعرفت وارث پاک قرآن کریم کی جامع تفسیر،  احادیث محمد و آلِ محمد کے وارث اور اولیاء،  عرفاء اور صوفیاء عظام کے اقوال،  افعال،  اعمال،  احوال و تعلیمات کے علمبردار تھے-
 وارث پاک مجرد تھے آپ نے شادی نہیں کی تھی بچپن ہی سے محویت میں رہکر عشقِ الٰہی میں مصروف رہے- آپ اکثر فرماتے تھے کہ" ہم لنگوٹ بند" ہیں- حق ہے کہ تجّرد... عشقِ کامل کا نتیجہ لازمی ہے- آدابِ عشق یہ ہیں کہ راہِ طلب میں فقیر ننگے سر اور پابرہنہ رہے- آپکی ذات محمود الصفات کو مرتبہ تسلیم و رضا  سے خاص نسبت تھی- آپ فرماتے ہیں کہ" تسلیم و رضا اھلِ بیت کے گھر کی لونڈی ہے"-" تسلیم و رضا کا مرتبہ بی بی فاطمہ نے اپنے بابا جان سے پایا اور حضراتِ حسنین کی وساطت سے جس کا. جس قدر حصّہ ہے وہ اسے ملتا ہے"- آپ نے فرمایا کہ" شکر اھلِ تسلیم و رضا کا مشرب ہے اور مشائخین کا مسلک اور ہے"- غرضکہ تسلیم و رضا مخصوص طور پر عاشقین کا مسلک و مشرب ہے،  رضا ثمرہ ہے محبت کا اسیلئے محبِ صادق اپنے محبوب کے ادائے دلنواز کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا ہے اور ہر حال میں رضا برضائے محبوب رہتا ہے- آپ نے فرمایا" ہماری منزل عشق ہے اور منزلِ عشق میں انتظام نہیں... ہمارا مشرب عشق ہے اور عشق میں خلافت،  جانشینی اور سجّادگی نہیں ہے... جو کوئ دعوٰیِ جانشینی کرے وہ باطل ہے،  ہمارے یہاں کوئ ہو،  چمار ہو یا خاکروب جو ہم سے محبت کرے ہمارا ہے"-
 وارث پاک نے گنڈا اور تعویذ دینے سے ہمیشہ احتراز کیا اور اپنے غلامانِ خرقہ پوش کو صاف الفاظ میں ہدایت فرمائی کہ فقیر کو چاہئیے کہ گنڈا اور تعویذ نہ کرے کیونکہ یہ تسلیم و رضا میں ممنوع ہے- حج سے واپس آکر احرام شریف نہیں اتارا اور دربارِ خداوندی کا لباس ہمیشہ کےلئے زیب تن فرمالیا- زیادہ تر آپ زرد رنگ کا احرام استعمال فرماتے تھے" یہی لباسِ زندگی ہے اور یہی کفن ہے"-آپکے فقراء اسی احرام میں دفن کئے جاتے ہیں-
  ارث پاک خلافِ محبت کوئ بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے اور یہی آپکی تعلیم و ہدایت تھی-آپکے اقوال،  ارشادات اور فرمودات نہایت اہم اور بصیرت افروز ہیں-آپکے تمام ملفوظات میں عشق و توحید اور تصدیق و یقین ہی کی تعلیمات ہیں جنکی تشریح کےلئے ایک دفتر چاہئیے- آپ فرماتے ہیں" مسجد،  مندر،  گرجا میں جہاں جائے سوائے ایک شان کے کچھ اور نہ دیکھے"- کیونکہ حقیقت میں وہی ایک صورت ہے جو کعبہ و دیر میں جلوہ فگن ہے-
 وارث پاک کی فقیری اور سلسلہءوارثیہ کا طرّہءامتیاز عشق و محبت ہے- آپ اپنی منزل کو منزلِ عشق فرمایا کرتے تھے- انکی ذات برکات عشق کا ایک کامل نمونہ تھی-آپکو دیکھتے ہی جذباتِعشق،  قلب میں موجزن ہونے لگتے تھے- آپکی عادات و اطوار،  حرکات و سکنات سب میں عشق کا ظہور تھا-آپکی بات بات میں عشق و محبت کے نکات ادا ہوتے تھے- آپ نے حقیقت کی نگاہ میں محبت کے برابر کسی چیز کو فوقیت نہیں دی- آپ نے فرمایا" عشق تین حرفوں ع+ ش+ ق سے مرکب ہے ع سے عبادتِ الٰہی ش سے شریعت کی تمام شرائط کے ساتھ ادائیگی ق قربانی کی رغبت دلاتا ہے یعنی اپنے نفس کو سچّے ذوق و شوق سے قربان کرو" آپکی زبانِ مبارک سے وقتاً فوقتاً عشق کے بارے میں اور دیگر اہم مسائل پر جو جملے نکلےتبرکاً پیش ہیں

اقوالِ وارث پاک
1- عشق وہی ہے جو کسب سے حاصل نہیں ہوتا ہے
2- عاشق مرید بے ایمان نہیں مرتا ہے
3- عشق میں انتظام نہیں ہے
4- عاشق وہ ہے جسکی ایک سانس بھی یادِ مطلوب سے خالی نہ جائے
5- محبت میں ادب اور بے ادبی میں کوئ فرق نہیں
6- عاشق کو خدا معشوق کی صورت میں ملتا ہے
7- محبت وہ چیز ہے جسکو کوئ ضرر نہیں پہونچا سکتا
8- محبت ہے تو ہم ہزاروں کوس پر تمہارے ساتھ ہیں
9- محبت میں بےادبی بھی عین ادب ہے
10- محبت میں ایمان ہے
11- فقیر کم مشائخ زیادہ ہوتے ہیں چونکہ منزلِ عشق سخت دشوار گزار ہے اسلئے طالب اس راستے کو کم پسند کرتے ہیں
12- جو ہم سے محبت کرے وہ ہمارا ہے
13- منزلِ عشق میں خلافت نہیں ہوتی
14- جس کو سب شیطان کہتے ہیں اس راہ میں وہ دوست بن جاتا ہے دشمنی نہیں کرسکتا
15- محبت میں انتظام نہیں ہے جہاں محبت نہیں وہاں انتظام ہے
16- عاشق کے مرید کا انجام خراب نہیں ہوتا
17- اگر عاشق کی زبان سے کوئ غلط بات نکل جائے خدا اسکو سچ کردیتا ہے
18- عاشق کے خیال پر دین و دنیا کا نظام ہے
19- عاشق کا گوشت درندوں پر حرام ہے- اس پر نہ سانپ کا زہر اثر کرسکتا ہے اور نہ اسے شیر کھاسکتا ہے
20- محبت کرو کسب سے کچھ نہیں ہوتا
21- جو کچھ ہے لگاؤ ہے باقی جھگڑا دکھانے کی چیز ہے،  اگر لگاؤ نہیں تو کچھ بھی نہیں،   دنیاداری دکانداری ہے
22- محبت خدا کا راز ہے
23- محبت بامِ حقیقت کا ایک زینہ ہے
24- محبت اسلام کی بنیاد ہے
25- محبت کامل ہے تو ایمان کامل ہے
26- محبت ناقص ہے تو ایمان بھی ناقص ہے
27- محبت ہمارا عین مشرب ہے
28- محبت کےلئے اتباعِ رسول شرط ہے
29- اتباعِ رسول کےلئے محبتِ رسول شرط ہے
30- سنا سنا،  جو ہم سے عشق کرے وہ ہمارا ہے
31- اگر محبت صادق ہوتی ہے تو محب کو ہر چیز میں محبوب کا جلوہ نظر آتا ہے
32- عاشق کا وظیفہ ذکرِ یار ہوتا ہے
33- عاشق سوائے معشوق کے کسی اور  کو محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا
34- عاشق جس خیال میں مرتا ہے وہی خیال اسکا حشر نشر قیامت و دوزخ و بہشت ہے بلکہ کثرتِ جذب میں خود وہی ہوجاتا ہے
35- عاشق کو خدا معشوق کی صورت میں ملتا ہے
36- بے محبت خدا نہیں ملتا
37- فرشتوں کو محبت جزوی دی گئ ہے جبکہ انسان کو محبت کامل مرحمت ہوئ ہے
38- محبت نہیں تو ریاضت بیکار ہے
39-  محبت میں شاہ و گدا کا فرق نہیں رہتا جیسے محمود و ایاز کا واقعہ ہے
40- بغیر محبت کے ذکر سے کچھ نہیں ہوتا
41- عاشقِ صادق مثل آنکھ کی پتلی کے ہوتا ہے کہ وجود چھوٹا اور شہود بڑا
42- بے دیکھے کسی چیز کا خیال محال ہے دیکھ کے عاشق ہونا ممکن ہے
43- عاشق وہ ہے جو اپنی ہستی سے گزر جائے اور مردے کی طرح ہوجائے اور خود کو بالکل زندہ نہ سمجھے
44- عاشق خیالِ یار میں خاموش رہتا ہے
45- عشق کی الٹی چال ہے جسکو پیار کرتا ہے اسی کو جلاتا ہے اور جسکو پیار نہیں کرتا اسکی باگ ڈھیلی کردیتا ہے
46- 
46- عشق میں سردے تو یہ ہم سر ہے
47- مشربِ عشق میں ایک صورت کے علاوہ دوسری صورت کو دیکھنا شرک ہے
48- علم اور شے ہے اور عشق کچھ اور ہے جہاں حضرتِ عشق آئے پھر وہاں علم اور عقل کا دخل نہیں
49- عشق میں ترک ہی ترک ہے- ترکِ دنیا،  ترکِ عقبٰی،  ترکِ شرک اور اپنا فراق
50- بھائ بھائ میں باہمی محبت ہونا اسکی دلیل ہے کہ انکو باپ سے محبت ہے
51- محبت میں انسان اندھا ہوجاتا ہے
52- محبت ہے تو سب کچھ محبت نہیں تو کچھ بھی نہیں
53- محبت ہی کے باعث انسان اشرف المخلوقات ہوا
54- محبت وہ چیز ہے جسکو کوئ ضرر نہیں پہونچاسکتا
55-  محبت خدا ہے اور خدا محبت
56- دنیا کی محبت بری چیز ہے
57- حقیقی محبت حاصل نہیں کی جاسکتی یہ تو خدا کی نعمت 
58- محبت اعلٰی ترین حقیقت تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے
5-9 محبت میں فاصلے کا شمار نہیں ہوتا
60- محبت عقیدہ،  عمل اور ایمان ہے
61- محبت کے بغیر عبادت بے ثمر ہے
62- اگر تمہاری محبت حقیقی ہے تو تم خدا کو دیکھ سکتے ہو
63-  جنکی محبت صادق ہے انکو ہر چیز میں ذاتِ الٰہی کا جلوہ نظر آتا ہے
64- محبت میں رقابت ضرور ہوتی ہے
65- محبت میں شیطان بھی غیر نہیں
66- محبت میں شیطان بھی دوست ہوجاتا ہے
67- جو محبت میں برباد ہوا وہ حقیقت میں آباد ہوا
68- محبتِ صادق کے واسطے ہر ذرّہ معرفت کا آئینہ ہوتا ہے
69-  محبت کو بجز ذات کے صفات سے تعلق نہیں رہتا
مظہرِ حق و صداقت حجّت دین ھدٰی وارث کے بعض مختصر اقوال و ارشادات ملاحظہ ہوں:----
1- منزلِ عشق میں ذات و صفات ایک ہوجاتے ہیں
 عاشق کا کمالِ عشق یہی ہے کہ وہ معشوق ہوجائے
3- جب عاشق معشوق کی ذات میں فنا ہوگیا تو عاشق عین معشوق ہوگیا،  یقیناً عشق و توحید لازم و ملزوم ہیں
4- عاشقِ کامل ہی موّحدِ کامل بھی ہوسکتا ہے جو ہر ذّرہ میں معشوق کے سوا کچھ نہیں دیکھتا
5- خدا اس وقت ملےگا جب من و تو کا جھگڑا چھوڑ دوگے
6- خدا تم میں ہے مگر تم دیکھ نہیں سکتے
7- جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے اسکو کوئ نقصان نہیں پہونچاسکتا جو خدا کل امراض کو دور کرسکتا ہے وہ بھوک اور پیاس کی زحمت کو بھی مٹادیتا ہے
8- نماز،  روزہ اور چیز ہے ایمان کچھ اور ہے،  نماز تو رکنِ اسلام ہے
9- رضائے یار عاشق کا ایمان ہے
10- اسلام اور چیز ہے ایمان اور چیز ہے
11- پیر و مرشد کی محبت مرید کا دین ہے
12-حشر کے روز مسجد تمہارے سجدوں کی گواہی دیگی
13- عبادت صرف مناز ہی نہیں اپنی خانہ داری میں ضروریات کی چیزیں لادینا،  بیوی کی کفالت،  بچوِں کی دلداری،  غلام و لونڈی کی پرورش،  حوائج ضروری سے فارغ ہونا،  کھانا اور کھلانا یہ سب عبادت ہے



14- توحید علم سینہ ہے جس کی سفینہ میں گنجائش نہیں کیونکہ  توحید نہ تقریر سے ادا ہوسکتی ہے نہ تحریر میں آسکتی ہے
15- توحید کے ظاہری اور مشہور معنی تو یہ ہے کہ خدا کو ایک کہو ایک سمجھو جو ایمان کی شرط ہے اور جب اسکی تصدیق ہوجاتی ہے اس وقت توحید کے دوسرے معنی ہے کہ خدا کو ایک دیکھو،  یہ تارفین کا مقام ہے اسلئے یہ منجانب اللہ موحد کے قلب پر القا ہوجاتے ہیں اور موحد اپنی بصیرت سے ہر چیز میں خدا کا جلوہ دیکھتا ہے
16- نماز روح کی غذا ہے نماز وہی ہے جو حضور قلب اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہو- نماز ضرور پڑھنا چاہئیے یہ نظامِ عالم ہے اگر یہ چھوڑ دی جائے تو نظامِ عالم میں خرابی آجائیگی
17- جو نماز نہیں پڑھے گا ہمارے حلقہءبیعت سے خارج ہے
18- نماز مومنوں کی معراج ہے کیونکہ ایک قسم کی حضوری نصیب ہوتی ہے جس کا خیال جس قدر پختہ ہوگا اسی قدر اسکو حضوری کا لطف حاصل ہوگا
19- خدا کو عجز بہت پسند ہے،  توبہ و استغفار کرو اور پابندی کے ساتھ نماز ادا کیا کرو کیونکہ نماز سراپا عجز کی تصویر اور عبدیت کی نشانی ہے وہ رحم کرے گا
20- ہر شخص کو شریعت کی پابندی اور سنّت کی اتباع لازمی ہے
21- نماز سے عبد و معبود کا امتیاز ہوتا ہے- بندے کو بندگی لازمی ہے
22- نماز میں عمداً دیر کرنا کاہلی کی دلیل ہے اور مالک کے حکم میں کاہلی عبدیت کے منافی ہے
23- جس کو یقین ہوتا ہے کہ حالتِ نماز میں خدا مجھکو دیکھتا ہے اسکو ضرور مشاہدہءانوارِ الٰہی کا شوق ہوجاتا ہے اور جسکا شوق کامل اور پختہ  ہوتا ہے اسکو ہر ذّرے میں محبوب کا جلوہ نظر آتا ہے
24- اعضائے وضو قیامت کے دن نورانی ہونگے
25- جو شخص باوضو رہتا ہے قیامت کے دن وہ پرہیزگاروں کی صف میں کھڑا ہوگا
26- مسافت مسجد کو پیدل طے کرنے سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے
27- اپنی بھلائ کو چھپاؤ اور کسی کی برائ نہ دیکھو
28-  جس نے صدق و خلوص سے حج کیا اسکا ایمان کامل ہے- حج چند امتحانات کا مجموعہ ہے  جو اس میں ثابت قدم رہا اسکا شمار خدا کے دوستوں میں ہوا- عاشق اپنے معشوق سے مل جائے یہی حج مقبول ہے
29- زکواتہ کی فرضیت سے انکار کرنا کفر ہے
30- مشربِ عشق میں زکواتہ کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز حلق سے فرد ہوجائے وہ اپنی  اور جو باقی رہے سب زکواتہ ہے
31- مشربِ عشق میں روزے کی حقیقی صفت یہ ہے کہ ترکِ غذا کے ساتھ خواہشِ غذا وسواس اور لذّتِ غذا کی تمیز اور احساس فنا ہوجائے
32- دنیا میں قابلِ تعریف شخص  وہ ہے جسکے دلا میں کسی کی طرف سے کینہ،  بغض،  حسد،  کدورت اور عداوت نہ ہو جو حضورص کی خاص صفت ، سنت اور سیرت ہے
33- منزلِ عشق میں خلافت نہیں ہوتی
34- فقیر نہ دوست کے واسطے دعا کرتا ہے اور نہ دشمن کے واسطے بددعا کیونکہ دوست دشمن کا پردہ ہے یہ سب انکا فعل ہے جسکا ہر چیز میں جلوہ ہے
35- دعا کرنا تسلیم و رضا کے خلاف ہے
36- صرف آنکھ بند کرنے،  سانس روکنے اور حق حق کرنے سے کیا ہوتا ہے یہ وہی چیز ہے جسکو چاہے خدائے پاک اپنی دولتِ معرفت سے نواز دے،  یہاں کسب کا کام نہیں
37- جو شخص سورہ فلق کثرت سے پڑھتا ہے اسکی روزی میں برکت ہوتی ہے
38- انا الحق سب پکارتے ہیں اور فنا فی اللہ بھی ہونے کو موجود ہیں مگر انا شیطان انا یزید کوئ نہیں کہتا،  یہی کہنا مشکل ہے
39- بڑا بخیل وہ ہے جو زکواتہ نہیں دیتا،  دنیا میں سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سرورِ کائنات اور انکی آل  کا نام آئے اور وہ درود شریف نہ پڑھے
40- باوجود اختیار کے دشمن سے بدلہ نہ لو کیونکہ وہ فاعلِ حقیقی ایک ہے تو عوض کس سے اور کون لے گا
41- کسی کو برا نہ کہو
42- فقیر کو لازم ہے کہ بجز خدا کے کسی پر بھروسہ نہ کرے
43- انسان کو چاہئے کہ خدا پر یقین رکھے جب خدا نے اسکی ضروریات کا ذمّہ لیا ہے تو برابر پہنچے گا مگر تصدیق چاہئے
44-  پیر و مرشد کی صورت میں خدا ملتا ہے
45- پیر وہ ہے جو صلبی اولاد سے قلبی اولاد پر زیادہ مہربان ہو
46- جسکا پیر نہیں اسکا دین نہیں
47- پیر کو رسمی مرید بہت ملے مگر مراد قسمت سے ہاتھ میں آتا ہے جیسے خواجہ عثمان ہارونی کو خواجہ معین الدین چشتی،  نظام الدین اولیاء کو امیر خسرو،  مخدوم شرف الدین یحٰیی منیری کو مولانا مظفر اور شمس تبریز کو مولانا رومی وغیرہ
48- ہر نماز کے بعد تسبیحِ فاطمہ پڑھا کرو باایمان مروگے
49- اپنے میں جو سانس چلتی ہے یہی ذات ہے پس تصدیق  مشکل ہے کیونکہ تصدیق ہزاروں میں ایک کو ہوتی ہے ہر شخص کا حصہ نہیں،  محبتِ ظاہری سے کچھ نہیں جب تک دلی تصدیق نہ ہو
50- شیطان سے قریب رہ کر یادِخدا کرنا بڑا کام ہے- اپنے نفس سے جہاد کرنا دلیلِ شجاعت ہے
51- حاجی وہ ہے جس پر حج منکشف ہوجائے
52- اھلِ بیت کے مشرب میں چھوڑی ہوئ چیز کو واپس لینا حرام 
53- حسد سے ایمان خراب ہوجاتا ہے،  حاسد ہمیشہ ذلیل رہتا ہے،  حسد بہت بری چیز ہے،  حسد میں سوائے نقصان کے فائدہ نہیں
54- اھلِ حق کا مذہب یہ ہے کہ بااعتبار اخبار و آثار صالح اصحابِ رسول کی تعظیم واجب اور لازمی ہے اور اھلِ بیت اطہار کی محبت نص قطعی سے فرض ہے اور اجرِ رسالت ہے
55- سنّتِ مرتضوی یہ ہے کہ اچھا نہ جانو تو برا بھی نہ کہو
56- جس دل کو محبت سے سروکار ہوتا ہے اس میں عداوت کی گنجائش نہیں ہوتی
57- منزلِ شاہدِ حقیقی تک رسائی کےلئے گو راہیں جداگانہ ضرور ہیں مگر دراصل راہگیروں کا مقصود اور نصب العین ایک یعنی لقائے یار ہے اسی واسطے راستوں کے نشیب و فراز کا تذکرہ بیکار ہے
58- جس نے حق کو دیکھا کامیاب ہوا اور جس نے خلق کو دیکھا وہ خراب ہوا
59- جس نے حق کو نفس کے ذریعے تلاش کیا اسکی توحید ناقص ہے
60- خانہء خدا کی زیارت کا شوق تو سب کو ہے مگر صاحبِ خانہ کا متلاشی ہزار میں ایک ہوتا ہے
61- جب تک خودبینی ہے حقیقت سے حجاب رہے گا- خود پرستی حجاب کو بڑھاتی ہے اور مقصود سے دور رکھتی ہے
62- رب اور رام اللہ اور ایشور حقیقت میں ایک ہی چیز ہے
63- علمائے ظاہر کا عجب مذہب ہے کہ جو دیکھ کر سجدہ کرے اسکو کافر کہتے ہیں اور جو دیکھے بغیر سجدہ کرے وہی مومن کہلائے
64- سلسلہء فقراء اھلِ بیت اطہار سے ہے
65- جو صفاتِ مرشد کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اسکو آخرت میں ذات کا مشاہدہ ہوتا ہے
66- ایک صورت کو پکڑ لو وہی تمہارے ساتھ رہے گی اور خدا تمہیں مل جائے گا
67- فقیر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے،  سوال حرام ہے
امّت مسلمہ باالخصوص مذہبِ حق کے محبان عاشقان اور پرستاران کو اللہ پاک توفیق عطا کریں کہ وہ امام الفقراء،  ام الفقراء اور شاہ الفقراء کے درجات کی معرفت حاصل کرکے راہِ حق اور صراطِ مستقیم دیکھ کر اس پر باقی رہیں- اللہ تعالٰی پنجتن پاک اور چہاردہ معصومین کے طفیل میں شاہِ ولایت مولا علی کے صدقے میں محبان اور عاشقانِ محمد و آلِ محمد،  صالح اصحاب،  عرفاء،  اولیاء اور صوفیاء حق کی راہ پر گامزن فرمائیں کیونکہ جس طرح ہمارے ائمّہ اور معصومین مسلکوں اور فرقوں کی بندشوں سے مبّرا تھے اسی طرح علمائ علم لدّنی اور معرفت خدمتِ خلق،  محبت،  اخّوت اور اتحاد کے علمبردار تھے اور ان علمائ باطن میں وارث پاک کا درجہ اسلئے بلند و بالا ہے کہ آپ نجیب الطرفین سادات الحسینی الموسوی ہیں،  انہیں روبرو مولا علی نے ظاہر میں باطنی بیعت سے سرفراز کیا ہے اورآپکا مشرب پنجتنی ہے اسیلئے فخریہ فرماتے رہتے کہ جنّت میں وہی جائے گا جو پنجتنی ہے. میرا عقیدہ ہے کہ اھلِ طریقت اور اھلِ سلاسل پنجتنی ہوتے ہیں،  محمد و آلِ محمد کی سنت،  سیرت و کردار پر عمل کرتے ہیں اور معرفت کے سارے دھارے بحرِ پنجتن می جاملتے ہیں اور انکا ایک ہی نعرہ ہے" من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ اور نعرہء حیدری،  حسینیت زندہ باد،  عزاداریء حسین پایندہ باد"-.......... نظام الحسینی


No comments:

Post a Comment