Sunday 5 March 2017

اجرِ رسالت کی ادائیگی اور ہماری غفلت

خاتم المرسلین،  محسنِ انسانیت،  سرورِ کائنات،  شافعِ محشر حضرت محمّد احمد مصطفٰی مرتضٰی مجتبٰی صلہ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور و معروف حدیثِ مبارک وفات سے قبل ہے" میں میں دو گراں قدر برابر وزن کی چیزیں-- قرآن کتاب اللہ اور اھلِ بیت عترت معلّمان و وارثان قرآن چھوڑے جارہا ہوں جب تک ان دوں سے تمسک رکھوگے،  ان سے عقیدت و محبت رکھوگے اور انکے نمونہءعمل کی پیروی کروگے یعنی شریعت اور طریقت پر عمل کروگے اور دونوں کی اطاعت و اتباع کرکے معرفت حاصل کروگے،  سیرت اھلِ بیت و آلِ محمد کو نمونہءعمل بناؤگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے حتٰی کہ حوضِ کوثر پر مجھ سے ملاقات کروگے یعنی حضور نے قرآن اور اھلِ بیت کے ماننے والوں کو جنّت کی بشارت دےکر انہیں ناجی قرار دیا ہے- یہے روحانی اور نورانی گروہ حضور کو اجرِ رسالت ادا کرکے شریعتِ خداوندی اور سنّت و سیرتِ محمدی پر عمل کررہا ہے-
 سرور کائنات کی معروف حدیث ہے کہ جو شخص امامِ زمانہ کی معرفت حاصل کئ بغیر مرگیا وہ حالتِ کفر و جاہلیت میں مرا،  قرآن پاک کی مقدس آیت ہے کہ روزِ حشر ہر فرد کو کو ہم اسکے امام کے پیچھے طلب کریں گے یعنی جو حشر امام کا ہوگا وہی حشر اسکے مقلدین و پیروکاروں کا ہوگا،  اب فیصلہ امتِ محمدی کو خود اپنے فہم،  ادراک،  فراست،  شعور،  محبت اور معرفت سے کرنا ہے کہ اللہ منتخب و نامزد کردہ اور رسول کے اعلان کردہ 12 خلفاء رسول یعنی اثناءعشری آلِ محمد و ائمّہ طاہرین کو اپنا ہادی،  رہبر،  پیشوا اور مسیحا یعنی اولاالامر منکم بنائیں یا امت کے منتخب کردہ یا خودساختہ خلفاء،  ائمہ،  ہادیوں اور رہبروں کو بناکر اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں- امتِ مسلمہ کو لازم ہے کہ محمد و آلِ محمد،  جن پر درود بھیجے بغیر نماز باطل ہوجاتی ہے،  عبادات جنک محبت کے بغیر ضائع اور بےمعنی ہوجاتی ہیں،  کی سیرت و کردار کو مشعلِ روہ بنائیں اور انکی کبرٰی اور ظاہری غیر حاضری میں شاہِ ولایت،  شہنشاہ الفقراء،  امام الائمہ،  سید الاوصیاء و اصفیاء مولا علی کے عطائ نائبین،  غلامان و عاشقان یعنی اولیاء اللہ،  صادقین،  محسنین،  مخلصین، مصلحین،  صالحین،  متقّیین،  مشاہدین،  شاہدین،  عارفین اور علمائے باطن سے رشد،  ہدایت اور معرفت حاصل کریں- یا ان علماءظاہر اور خودساختہ دین کے تاجروں و سوداگروں سے جو دین میں فتنے فساد،  افتراق و انتشار و خلفشار،  تعصّب،  عداوت،  کدورت،  بغض،  کینہ،  حسد،  نفرت اور ضد کے پرچار میں مصروف ہیں اور فرقوں،  گروہوں،  مسلکوں،  فقہوں مشربوں،  خودساختہ معرفتی و روحانی سلاسل کے نام نہاد پیروں،  مرشدوں اور سوداگروں کا حلیہ بناکر سادہ لوح انسانوں کو ڈھال بناکر گمراہ کرکے نفرت میں مبتلا کرکے انہیں راہِ ہدایت و نجات سے دور کررہے ہیں جبکہ چھ مروّجہ فقہوں-- جعفری،  حنفی،  مالکی،  شافعی،  حنبلی اور وھابی کے پیروکار اپنی ابتدا سے جنگ و جدل،  خونریزی،  قتل و غارتگری،  فتنہ و فساد میں مصروف ہوکر ایک دوسرے کو مشرک،  کافر و منافق ثابت کرنے پر اور جہنّم بھیجنے کے ٹھیکہ دار بنے ہوئے ہیں اور سبھی سنت و سیرت رسول کی پیروی کے دعویدار ہیں. اگر واقعی ایسا تھا تو عالموں اور حکمرانوں کی شہ اور اشارے پر مختلف فقہیں سیاسی حالات کے تحت کیوں وضع کی گئیں جبکہ ایک ہی فقہءمحمدیہ معرضِ وجود میں تھی وہی فقہ امتِ مسلمہ میں رائج رہتی جو بعد میں اپنے ہادیوں سے منسوب کردی گئ محض عداوتِ آلِ محمد میں کیونکہ بارہ ائمّ اطہار فقہءمحمدیہ پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر مفاد پرستی اور خود پرستی کے جذبے میں الگ الگ فقہی ناموں کے ذریعہ علمائے نے اپنا الّو سیدھا کیا اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں الگ الگ بناکر امتِ محمدے کے شیرازے بکھیر دئے جبکہ راسخ العقیدہ مومن کےلئے کوئ سنت کوئ سیرت کوئ فقہ نہیں سوائے سیرت سنت و فقہء محمدی کے کیونکہ پانچ فقہیں باہمی اختلافی ہیں ہیں جبکہ فقہ جعفریہ ہی دراصل فقہء محمدیہ،  علویہ،  حسنیہ،  حسینیہ یہاں تک کہ مہدیہ ہے بارہ اماموں کی فقہ میں کوئ اختلاف نہیں کیونکہ وہی وارثانِ رسول ہیں-
 حقیقت اور معرفت یہ ہے کہ کائنات میں روزِ ازل سے صرف دو نظریات،  عقئد،  مذاہب،  ادیان،  مسالک اور فرقے عالم وجود میں آئے یعنی حق و باطل،  ظالم و مظلوم،  قاتل و مقتول،  عدل و ظلم،  انسانیت و خباثت و درندگی و حیونیت،  آدمیت و ابلیسیت،  ہابلیت و قابلیت،  ابراہمیت و نمرودیے،  موسٰیویت و فرعونیت،  عیسیویت و علماء خبائث، محمدیت و ابو جہلیت+ ابو لہبیت+ ابوسفیانیت،  علیت و معاویت اور تابوت میں آخری کیل حسینیت و یذیدیت ہیں- اللہ پاک نے طاطل فرقوں اور قوتوں کی سرکوبی اور بیخ کنی کےلئے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء و مرسلین،  ائمّہ طاہرینِ الٰہیہ اور کروڑوں اولیاء اللہ،  عارفین،  صادقین،  محسنین،  مخلصین ور مصلحین وغیرہ رشد و ہدایت کےلئے آتے رہے اور ابلیسوں اسکے مریدوں،  منافقوں اور باطل طاقتوں ، یزیدیوں اور اسکی نسلوں کا قلع قمع کرتے رہیں گے-
 پنجتن پاک،  اھلِ بیت اطہار،چہاردہ معصومین،  محسن اعظم شہیدِ کربلا  ااور مسیحائے انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام حضراتِ اھلِ تشیع کی اجارہداری اور ملکیت نہیں ہیں وہ ساری کائنات کے تمام مذاہب کے ہادی،  رہبر،  قائد اور مسیحا ہیں- بقول جوش ملیح آبادی
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو+ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
 ہمارا وجود-- باطنی،  روحانی،  نورانی پنجتن پاک،  بارہ ائمہ اطہار و چہاردہ معصومین یعنی آب،  باد،  خاک،  آتش اور روح وجودی ذات ہیں اور ارادہ،  حیء،  قادر،  سمیع،  بصیر،  علیم و کلیم سات صفاتِ وجود ہیں اور ان بارہ کے علاوہ حضور نورِ خداوندی اور حضرت فاطمہ روحِ خداوندی ہیں،  اجزائے خمسہ کے خمیر سے اللہ نے بقول خود اپنے دونوں ہاتھوں سے وجودِ آدم تیار کیا ہے او ظاہر میں محمد،  علی،  فاطمہ،  حسن و حسین ہیں اور باطن میں ممکن الوجود،  واجب الوجود،  ممتنع الوجود،  عارف الوجود اور وحدت الوجود ہیں- مقامات ناسوت،  ملکوت،  جبروت،  لاھوت و ھاھوت ہیں- ناسوت شریعت و علم الیقین ہے جبکہ طریقت،  حقیقت،  معرفت اور قربت عین الیقین،  حق الیقین،  غیب الیقین اور ھو الیقین ہیں گویا انوارِ الٰہی اور وصلِ الٰہی معراجِ بندگی ہیں غرضکہ ساری معرفتِ الٰہی پانچ ستونوں کی مرہونِ منّت ہے" یادِ صنم،  دیدِ صنم،  ندائے صنم،  رضائے صنم و قربِ صنم"- بغیر باطنی،  روحانی و عرفانی مرشد و رہبرِکامل و ہادیء حقیقی کے علمِ لدّنی و معرفت و عشقِ الٰہی و مودت و محبتِ آلِ محمد کسی کو روحانی بیعت کے نصیب نہیں ہوسکتی جو امامِ زمانہ کی بیعت بدست انکے وکیل یا ظاہری مرشد کے ذریعے ظہور پزیر ہوتی ہے- مولا علی کا نہج الاسرار میں معرفت میں ڈوبا قول ہے" جو نفس ذکرِ خفی میں مشغول ہے بس وہی زندہ ہے اور جو نفس ذکرِ خفی سے غافل ہے مردہ ہے اسلئے ذکر خفی سے کون آگاہ کریگا یہ علماءظاہر؟  اسیلئے اذکار،  سلطان الاذکار،  اشغال کے ذریعے اسرار و رموزِ الٰہیہ سے صرف مرشد حقیقی و کامل و روحان و باطنی و عرفانی متعارف اور روشناس کراسکتا ہے یعنی خفیہ،  پوشیدہ روحانی عبادات ہی ذریعہء نجات اور قربِ الٰہی کا وسیلہ و ذریعہ ہیں- 
ملتِ اسلامیہ سیکڑوں فرقوں میں منقسم ہوکر باہمی  فتنہ و فساد،  خونریزی،  قتل و غارتگری میں مصروف ہے- انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے،  فرقوں کے نام پر کلمہ گو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں،؟ مسالک،  سلاسل،  فرقوں اور مشربوں میں ریس ہورہی ہے،  سبھی ناجی ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں،  شیعہ،  سنّی،  وھابی،  جماعتی،  تبلیغی،  بریلوی،  دیو بندی،  اھل حدیث،  داؤدی بوہری،  اسماعیلی غرضکہ تمام فرقوں کے نام نہاد علماء جنت کے ٹھیکےدار اور سوداگر بنے ہوئے ہیں جس دن امت مسلمہ ان خود ساختہ مولویوں،  واعظوں، ذکروں،  عالموں اور تاجروں کے پھندوں،  شکنجوں اور گورکھ دھندوں سے نجات حاصل کریگی اور فرقہ بندی و فرقہ پرستی سے باہر نکل کر قرآن اور اھل بیت کی تعلیمات کو مشعلِ راہ اور نمونہءعمل بنائیگی اور اھل بیت و آلِ محمد کی افضلیت،  اہمیت و افادیت کو تسلیم کرکے فکری و عملی مودت و محبت اختیار کرکے خود کو صرف محمدی و آلِ محمدی تصور کریگی تو سفینہءنجات پر سوار ہوکر نہ صرف ملت فروشوں سے نجات حاصل کرلے گی بلکہ راہ حق بھی پاجائے گی- حسینیت زندہ باد اور یزیدیت مردہ باد ہوجائے گی-تمام فرقے باہمی اختلافات و تنازعات کو فراموش کرکے نفرت،  عداوت،  کدورت،  حسد،  بغض،  کینہ،  عناد،  فتنہ و فساد کو طلاق دے کر حسین و حسینیت کو مشعلِ راہ بنائیں گے،  فروعی مسائل اور عبادات کو اپنی ذات تک محدود کرکے شفینہء نجات پر سوار ہوکر اللہ و رسول و آلِ رسول کی رضاجوئ اور خوشنودی کی مئے سے سرشار اور بیخود ہونگے،  بت و صنم پرستی کی جگہ توحید پرستی،  بےایمانی کی جگہ ایمانداری،  خیانت کی جگہ امانت،  باطل پرستی کی جگہ حق پرستی،  بے انصافی کی جگہ انصاف پسندی،  دنیا پرستی،  خود پرستی،  نفس پرستی اور مفاد پرستی کی جگہ خداپرستی، حق پرستی، دین پ. رستی،  نفس پرستی کی جگہ معشوق پرستی،  یزید پرستی کی جگہ حسین پرستی اور فرقہ پرستی کی جگہ محمد پرستی کا دور دورہ ہوگا- آلِ محمد کے آخری محمد امام مہدی علیہ السلام منصبِ محمد پر فائز ہوکر آخری امام کی حیثیت سے ظہور فرمائیں گے،  انسانیت،  حق و انصاف و محبت کا بول بالا ہوگا،  حضرت عیسٰی چرخ چہارم سے اتر کر امام مہدی ع کی بیعت کرکے انکے پیچھے نماز پڑھیں گے،  کانا دجّال قتل ہوگا- حضور کی متفقہ معروف حدیث ہے" ہم 14 معصومین میں پہلا بھی محمد،  اوسط بھی محمد،  آخری بھی محمد غرضکہ ہم سب اپنے اپنے دور کے صفاتی محمد ہونگے- شہرہ آفاق حدیث نبوی ہے کہ میرے اھل بیت کی مثال کشتیء نوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہوا اسنے نجات پائ جو کشتی سے دور رہا غرقاب ہوگیا- حضور نے 73 فرقوں میں ناجی فرقے کی نشاندہی فرمادی کہ جو اللہ کے حکم سے مجھے اجرِ رسالت ادا کرینگے جو میرے اقربا یعنی اھل بیت سے مودت  ہے جو بھی میرے اھل. بیت سے مودت اختیار کرکے اجرِ رسالت ادا کرے گا اسی کو نجات ملے گی اور اسی کی عبادات قبول ہونگی
حجتہ الوداع یعنی ظاہری وفات سے قبل حضور کا آخری حج،  سے واپسی پر غدیرِ خم کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے معرکتہ الارا اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دین کی تکمیل اور اللہ کی رضاعت کا اعلان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اللہ میرا مولا ہے میں مومنین کا مولا ہوں اور جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں- مولا علی کی ولایت،  امامت،  وصایت اور باطنی،  روحانی،  نورانی اور ظاہری خلافت،  جانشینی اور حاکمیت کی سند دینے کے بعد کہا کہ شب معراج اللہ نے وحیء خفی کے ذریعے علی کی ولایت و مولائیت کا پیغام مجھے براہ راست دیا تھا آج جبریل کے ذریعے وحیء جلی کی ہے کہ پہونچا دیجئے وہ پیغام جو میں نے دیا تھا آج اگر آپ نے نہ پہونچایا تو کوئ کارِ رسالت ہی انجام نہ دیا-
جس اللہ نے ہمیشہ اپنے محبوب طٰہ،  یٰسین،  مزّمل،  مدثر،حبیب وغیرہ سے خطاب کیاتھا مگر ولایتِ علی کے اعلان کے معاملے میں منصبِ رسول سے ترشی کے ساتھ خطاب کیا- اسکا مطلب ہے کہ اگر حضور نے " من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ" اعلان نہ جیا تو23 سالہ تبلیغ و محنت ضائع کی کیونکہ علی کُلِ ایمان ہیں-  حضور نے صحابہ کرام سے اونٹوں کے کجاوے کا منبر بنواکر اسپر کھٹے ہوکر علی کو دونوں ہاتھوں پر اس قدر بلند کیا کہ رسالت امامت و ولایت کے پیچھے چھپ گئ جو اس بات کا ثبوت تھا کہ شمع رسالت بجھنے والی ہے اور شمسِ امامت فروزاں ہونے والا ہے- حضور نے جشنِ غدیری پر مہر ثبت کرنے کےلئے حضرت بلال کی جگہ حضرت ابو ذر غفاری کو اذان دینے کا حکم دیا جنہوں نے علی کی تاجپوشی سے بیخود و مست ہوکر نعرہء حیدری بلند کرکے اذان میں دو مرتبہ" اشہد انّا علی ولی  اللہ" کا اضافہ کیا جس پر رسول اللہ نے بے پناہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تمام صحابیوں اور حاجیوں کو حکم دیا کہ فرداً فرداً مولا علی کو مبارکباد دیں جلیل القدر صحابی حضرت عمر بخ بخ کہتے ہوئے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا" یا علی آج سے آپ تمام مومنین و مومناتحتٰی کہ میرے بھی مولا ہوگئے"-
اس تقریبِ جلیلہ کے موقع پر حضور نے فرمایا کہ ولایتِ علی کے اعلان کے بعد جبریل پھر آیت لائے کہ آج دینِ اسلام مکمل ہوگیا اور اللہ دین سے راضی ہوگیا اور تمام نعمتیں تمام کردیں- اسی موقع پر آیت نازل ہوئ کہ اللہ چاہتا ہے کہ رسالت کی کاوشوںکےلیئے.
مسلسل... اجر رسالت.... 5
امتِ مسلمہ سےاجریا صلہ طلب کیجئے جو جو اقرباء یعنی اھل بیت سے مودت و محبت ہے" قال اللہ لا اسلیکم علیہ اجراًالا مودتہ فی القرباء... شورٰی،  آیت23 پ25.- فرمادیجئے کہ میں تم سے اجرِ رسالت کے طور پر کچھ  طلب نہیں کرتاسوائے میرے اھلِ بیت سے مودت و محبت کے-- آج امت ِمحمدی فیصلہ کرے کہ وہ محبوبِ خداکو اجر رسالت ادا کررہی ہے یا رسمی عبادات کے ذریعے رضائے الٰہی وخوشنودیء رسول کی طلبگار و متلاشی ہے کیونکہ درزی کو اجرت دئے بغیر جس کپڑے پر کوئ عبادت قبول نہیں تو اپنے محبوب کے اجر رسالت کے بغیراللہ کس طرح امت کی عبادات قبول کرےگا بقول چراغِ بنگالہ صوفی شاعر سید مسکین علی شاہ چشتی
زاہد تیری نماز کو میرا سلام ہے+ بے حُبِِ اھلِ بیت عبادت حرام ہے
مقامِ حیرت اور عبرت ہے کہ 1300 سال سے لاکھوں اعلام،  آیت اللہ،  علماء،  مجتہدین،  روحانی سلاسل کے لاکھوں اولیاء،  صوفیاء،  صلحاء اور عرفاء کی موجودگی کے باوجود قائم محمد امام مہدیعلیہ السلام کو آجتک جنگ بدر کی تعداد کے313 جانثار سپہ سالار اور ناصر نہیں مل سکے کہ حضرت ظہور فرماکر نظامِ عدل قائم کرکے،  حسین کےقتل کا انتقام لے کر،  فرقوں کو نیست و نابود کرکے صرف حسینیت کے سفینہءنجات پر انسانیت کو سوار کراکے اپنے نصب العین کو شرمندہءتعبیر کریں گے اور ہر انسان کو عملی حسینی بنائیں گے- واضح رہے کہ رسولِ اللہ کی ظاہری وفات کے بعد جو سیاسی فضا پیدا کردی گئ تھی،  غدیری اعلانِ ولایت،  امامت،  وصایت اور خلافت کو بالائے طاق رکھ کر ثقیفائ خلافت بذریعہ شورٰی و اجتماع قائم کردیگئ تھی ایسے مفاد پرستانہ ماحول اور سیاسی فضا میں اھل بیت کےلئے گوشہ نشینی و تنہائ کے سوا کوئ چارہ نہ تھا کیونکہ حضور نے مولا علی کو صبر،  ضبط و تحمل کی تلقین کی تھی- رسول کے احکامات،  تعلیمات،  فرمودات،  سنّت و سیرت سے انحراف کیا گیا،  فراموش و نظر انداز کردی گئیں جس کی وجہ سے دنیا آلِ محمد کے اصلی خدو خال سے بیگانہ اور انکے علوم،  فضائل،  مناقب و کمالات سے ناآشنا ہوکر رہ گئ تھی- انہیں نظروں سے گرانا،  اقتدار سے الگ رکھنا اور ان پر ظلم و ستم کرنا،  انکے مقابلے میں ظاہری اور دنیاوی حکمرانوں کو مقرر کرنا،  شریعت و سنتِ محمدی میں ترمیم و اضافہ و بدعت کو اسلام کی بہت بڑی خدمت تصّور کیا گیا- البتہ ایک گروہ ایسا تھا جو آپکیچوتھی خلافت کو نصی سمجھتے ہوئے دینی فریضے کی حیثیت سے مولا علی کی بیعت کر رہا تھا ورنہ اکثریت تو انہیں دیگر سابقہخلفاء کیطرح فرمانروا اور بلحاظ فضیلت چوتھے درجے پر یا خلفاءثلاثہ کے بعد عام صحابہ کی سطح پر سمجھتی تھی اور بیعت سیاسی حالات کی مجبوری تھی- وہ لوگ آپکی خلافت کو منجانب اللہ اور امام برائےاطاعت نہ سمجھ رہے ہوں بلکہ جمہوری سربراہ کی حیثیت سے بیعت کی تھی اسی لئے  وہ لوگ آسانی سےبیعت شکنی بھی کررہے تھے،  جنگ و جدال و بغاوت بھی کررہے تھے اور من مانی کرکے شیعیت کے دعوے کرکے مولا علی کے احکامات کی حکم عدولی اور نافرمانی بھی کررہے تھے-
 مولا علی نے حضور کی تجہیز و تدفین سے فرصت پائ تو گمنام ثقیفہ کے مطلع میں غدیری آفتاب کو سازش کرکے ضیاپاشی سے محروم کرنے اور انہیں مطیع بنانے،  بیعت کرنے کےلئے ناقابل فراموش اور حیاسوز مظالم ڈھائے گئے مولا فرماتے رہے کہ میں ہی لوگوں کی امامت،  خلافت و قیادت کےلئے سب سے زیادہ مقّدم و اولٰی ہوں اور تم لوگ حق کے قائم کرنے میں میرے ناصر و مددگار بنو مگر حق پرستی دم توڑ چکی تھی- مشہور و معروف حدیثِ نبوی ہےا" علی حق کے ساتھ حق علی کے ساتھ اور حق علی کے پیچھے چلتا ہے"-
 یہ حدیث بھی معروف ہے" اے علی کوئ مومن تم سے دشمنی نہیں کرے گا اور کوئ منافق تم سے محبت نہیں کریگا"- مولا علی فرماتے ہیِں کہ ہم اھلِ بیت نبّوت کا شجرہ،  رسالت کی منزل،  ملائکہ کی فرودگاہ،  علم کا معدن اور حکمت کا سرچشمہ ہیں- ہماری نصرت کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا رحمت کےلئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہرِ الٰہی کا منتظر رہنا چاہئیے- حضور نے سفینہءنجات اھل بیت کی شان میں ہزاروں احادیث بیان فرمائ ہیِ جنہیں زرخریدوں اور دشمنوں نے چھپانے کی کوشش ہر زمانے میں کی ہیں غرضکہ اھلبیت تاریکیوں کے چراغ،  امت کےلئے سامانِ حفاظت و مسیحا،  دین کے روشن مینار اور فضل و کماک کا بلند معیار ہیں نیز پنجتن پاک جنّت کے مالک،  آقا،  سیّد و مختار ہیں.... نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment