Sunday 5 March 2017

مرارجِ عارفاں

سلطان الہند خواجہ معین الدین اجمیری نے ایک مجلس میں عرفاء کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ خواجہ ذوالنون مصری ایک صوفی نے سوال کیا کہ عارف کسے کہتے ہیں؟  انہوں نے جواب دیا کہ عارف ہو لوگ ہوتے ہیں جن کے دل سے بشریت کی کدورت دور ہوجاتی ہے اور انکے دل حرص و ہوس سے پاک ہوجاتے ہیں اور ان میں عشقِ الٰہی موجزن ہوجاتا ہے- غیر کی طرف وہ آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے اور محض عالمِ تصوف ہوکر صوفی بن جانا مناسب نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ خود کو ہمہ تن اخلاق بنانا ہوگا- عارف دنیا کا دشمن اور مولا کا دوست ہے وہ دنیا سے بچتا ہے کیونکہ اس میں حسد و بغض کے سوا اور ہے ہی کیا؟  جو شخص دنیا میں مشغول ہوگیا وہ حق سے دور ہوگیا- اسی طرح  ایک دفعہ خواجہ حسن بصری سے کسی نے عارف کی تعریف پوچھی- انہوں نے جواب دیا کہ عارف وہ ہے جو دنیا سے غرض نہ رکھے اور جو کچھ اسکے پاس ہو راہِ خدا میں لٹادے- خواجہ غریب نواز نے ایک مجلس میں،  جس میں انکے خل یفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے علاوہ شیخ اوحد الدین کرمانی،  مولانا بہاء الدین اور چند دیگر درویش نھیش حاضر تھے،  فرمایا کہ عارفوں کا توّکل یہ ہے کہ اللہ پاک کے سوا کسی غیر سے ہرگز مدد نہ مانگیں بلکہ کسی غیر کو دھیان میشں نہ لائیں- ایک دفعہ خواجہ جنید بغدادی سے پوچھا گیا کہ عارف کا توکل کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ عارف کا توکل یہ ہے کہ اسکا دل ان تین چیزوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دے اوّل علم دوم عمل سوم خلوت- ایک اور بزرگ نے کہا کہ عارف وہ ہے جو سوائے ذاتِ الٰہی کے کسی سے محبت نہ کرے اسی طرح ایک اور بزرگ نے کہ کہ عارف کےلئے ضروری ہے کہ وہ موت کو دوست رکھے بےقراری کی حالت میں ذکرِ الٰہی سے راحت حاصل کرے اور دوست کی آمد کے وقت. مضطرب ہوجائے- خواجہ صاحب نے آتشِ نمرود کے موقع پر جبریل نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے دریافت کیا کہ میں آپکی کوئ حاجت پوری کرسکتا ہوں حضرت ابراہیم نے جواب دیا نہیں تم سے کوئ حاجت نہیں ہے جس سے ہے اس سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے جب وہ سب کچھ جانتا ہے تو پھر میں کسی اور سے مدد کیوں مانگوں- خواجہ صاحب نے مزید کہا کہ انکے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کا کہنا ہے کہ اہلِ محبت سوائے دوست کے کسی اور کی محبت اپنے دل میں جاگزیں نہیں ہونے دیتے جس نے غیر کی طرف دیکھا رنج و غم میں مبتلا ہوا جو دوست کا طلبگار نہیں ھیچ در ھیچ ہے- سہروردی سلسلے کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ دنیا میں دو چیزیں بہت ہی اچھی ہیں ایک صحبتِ فقراء اور دوسری حرمتِ اولیاء- عارفوں کے نزدیک خوف یہ ہے گناہ ترک کردیا جائے تاکہ دوزخ سے نجات ملے،  رجا یہ ہے کہ مولائے کریم کی طاعت بےریا کی جائے تاکہ منزل پر پہنچ کر حیاتِ ابدی حاصل کرے محبت یہ ہے کہ ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول میں کوشاں رہے-
 کمال عشق
 ایک دفعہ کسی نے منصور حسین حلاج سے پوچھا کہ دوست کے عشق میں درجہءکمال کیا ہے؟  جواب دیا کہ دوست جو چاہے کرلے عاشق کو ہر حال میں سرِ نیاز جھکانا ہے- دکھ سکھ برا بھلا جو کچھ بھی ہو اسے یار کی طرف سے سمجھ کر خوشی سے قبول کرے ہر وقت کمرِ ہمت باندھ کر رکھے اور احکامِ الٰہی کی تعمیل کرتا رہے- مشاہدہءحق میں اسکے استغراق کا یہ عالم ہوکہ کسی چیز کی سدھ بدھ نہ رہے یہی مقام خاص الخاص ہے- ایک دفعہ شیخ داؤد طائ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے تو آنکھیں بند تھیں،  ایک بزرگ نے بند رکھنے کا سبب پوچھا جواب دیا کہ میں نے 45 سال سے آنکھیں کھولنا ترک کیا ہوا ہے کہ سوائے دوست کے کسی غیر پر میری نظر نہ پڑے کیونکہ دوست کے سوا کسی دوسرے کو دیکھنا شرطِ محبت نہیں ہے- ایک مرتبہ جنید بغدادی سے کسی نے پوچھا کہ راہِ طریقت میں محبت کسے کہتے ہیں؟  جواب دیا کہ عشقِ  الٰہی یا محبتِ الٰہی کا حاصل یہ ہے کہ اللہ اپنے محب کے دل میں اپنے دیدار کا ذوق و شوق پیدا کردیتا ہے اور اسے سرداری عطا کرتا ہے- عاشقِ الٰہی سے کوئ فعل ایسا سرزد نہیں ہوتا جس سے حق سے دوری ہو کیونکہ جس نے حق کو راضی کرلیا،  حق اسکا دوست بن گیا اور جنّت اسکے دیدار کی مشتاق-خواجہ ابو سعید ابو الخیر فرماتے تھے کہ جب اللہ کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اسکو اپنی محبت عطا کردیتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن  اسکی رضا کےلئے خود کو وقف کردیتا ہے- آخر حق تعالٰی اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے تاکہ وہ فنا فی اللہ ہوجائے- اہلِ سلوک کے نزدیک توبہ کی تین اقسام ہیں اول عبادت کےلئے کم سونا دوم دعو کےلئے کم بولنا سوم کم کھانا تاکہ روزہ کی شرط ادا ہوجائے-
خواجہ صاحب نے ایک مجلس میں عشق صادق کے بارے میں بتایا کہ عشق میں صادق وہ شخص ہے کہ خواہ دوست کی طرف سے اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں وہ زبان سے اُف تک نہ کرے اور بخوشی یہ مصائب برداشت کرکے شکر ادا کرے- شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ عشق میں صادق وہ شخص ہے کہ اسکے سر پر ہزاروں تلواریں آ پڑیں مگر عالمِ شوقِ دید میں اسے خبر تک نہ ہو- ایک دفعہ قلندر رابعہ بصری،  جو حسن بصری کی طالبہ تھیں،  خواجہ حسن بصری،  خواجہ شفیق بلخی اور مالک دینار ایک مجلس میں یکجا تھے وہاں عشقِ صادق پر گفتگو ہونے لگی-  حسن بصری نے کہا کہ اگر انسان کو عشقِ الٰہی میں کچھ دکھ پہنچے تو صبر کرے- رابعہ بصری نے فرمایا کہ خواجہ اس سے تو  خودی کی بُو آتی ہے- اب مالک دینار نے فرمایا کہاگر انسان کو عشقِ الٰہی میں کچھ دکھ پہنچے تو پھر بھی خوش رہے اور اللہ کی خوشنودی کا طالب رہے- رابعہ بصری نے فرمایا کہ عقشقِ صادق کو اس سے بھی بڑھکر ہونا چاہئے اس پر شفیق بلخی فرمانے لگے کہ عاشقِ صادق وہ ہے کہ اسے ذرّہ ذرّہ کردیا جائے پھر بھی اُف نہ کرے- رابعہ بصری نے فرمایا کہ میرے نزدیک عشقِ صادق یہ ہے کہ عاشق کو خواہ لاکھ مصائب پہنچیں وہ مشاہدہءحق سے غافل نہ ہو- خواجہ اجمیری بھی رابعہ بصری سے متفق تھے
فقرِ صادق
فقرِ صادق یا فقرِ حقیقی مفلسی یا قلاشی نہیں ہے بلکہ اسکا یہ مطلب ہے کہ انسان ہر قسم کی حرص و طمع سے آزاد رہ کر اللہ سے لو لگائے رکھے اور کوئ کامیابی یا محرومی اس میں سرکشی یا پستی کا جذبہ پیدا نہ  کرسکے- ایک باثروت شخص اور ایک باجبروت بادشاہ بھی فقرِ حقیقی کا حامل ہوسکتا ہے بشرطیکہ اسکی دولت و سطوت محض اللہ کےلئے وقف ہو- جب فقر الی اللہ درست ہوجاتا ہے تو غنا غنی باللہ میّسر آتا ہے یہ دونوں احوال ہیں اور ایک کی دوسرے کے بغیر تکمیل نہیں ہوتی- ابو بکر شبلی کا قول ہے کہ فقر کی ادنٰی ترین علامت یہ ہے کہ  اگر کوئ شخص تمام دنیا کا مالک ہوکر اسکو ایک ہی دن میں خرچ کرڈالے اور پھر اسکے قلب میں یہ خطرہ گزر جائے کہ اس میں سے صرف ایک دن کی روزی روک لیتا تو اسکا فقر صادق نہیں ہے- قشیری رسالہءقشیریہ میں یحٰی بن معاذ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ فقر کی حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا ہر چیز سے بے نیازی ہو- یعنی فقر صادق حقیقت میں ترکِ دنیا ہے لیکن اسے جوگ اور رہبانیت سے دور کا واسطہ نہیں- سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ ترکِ دنیا کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو برہنہ کرلے مثلاً لنگوٹ باندھ کر بیٹھ جائے- ترکِ دنیا یہ ہے کہ انسان لباس بھی پہنے اور کھانا بھی کھائے البتہ جو کماتا رہے خرچ کرتا رہے جمع کرکے نہ رکھے اور دنیا کی چیزوں میں دل نہ لگائے دنیا پرستی نفس پرستی ہوس پرستی اور دنیا طلبی سے کوسوں دور رہ کر خدمتِ خلق کو نصب العین بنائے رکھے-
 مندرجہ بالا حوالہ جات کا ایک ہی مقصد ہے کہ امِّ مسلمہ باور کرلے کی شریعت اور طریقت ایک سکّے کے دو رخ اور لازم و ملزوم ہیں شریعت پر عمل کرکے ہی طریقت،  حقیقت،  معرفت اور وحدت کی منازل سے ہمکنار ہوکر راہِ سلوک کا مسافر عارف باللہ پر فائز ہوتا ہے- یہ حقیقت عیاں ہے کہ علمِ لدّنی،  معرفت اور تصّوف کے روحِ رواں حضرات پنجتن پاک،  اھلِ بیت اور آلِ محمد ہیں اور ان ہی سے صالح اور طاعت گزار اصحابِ رسول،  تابعین اور تبع تابعین فیضیاب ہوئے جن میں اصحبِ صفّہ قابل ذکر ہیں اور اللہ کے منتخب ائمہ اثنا عشری میں سے 8 ویں امام مطہر تک اولیاء،  عرفاءاور صوفیاء کو بیعت و خلافت دیکر باطنی،نورانی،  روحانی اور عرفانی علوم و تعلیمات سے منّور فرمایا اسکے بعد غیر آلِ محمد بھی پیر و مرشد بنتے گئے اور سلاسل وجود میں آئے جس طرح شریعت میں شروع سے آخر تک یعنی محمد سے مہدی تک ایک ہی شریعت ایک ہی سنت ایک ہی سیرت اور ایک ہی فقہءحقانی ہے اسی طرح طریقت،   حقیقت،  معدفت اور وحدت سب کا منبع،  محور اور مرکز محمد و آلِ محمد ہیں اور جو معرفت اور تصوف پنجتن پاک،  اھلِ بیت،  آلِ محمد سے ہٹ کر ہے وہ معرفتِ دنیاوی تو ہوسکتی ہے معرفتِ الٰہی ہرگز نہیں ہوسکتی- میں نے چند اولیاء و صوفیاء و عرفاء کے احوال و اقوال اس لئے پیش کئے کہ اندازہ ہوسکے کہ جن خاص الخاص اشخاص نے علم شریعت اور معرفت در پنجتن پاک اور آلِ محمد باالخصوص شاہِ ولایت مولا علی اور شہنشاہ الفقراء حضرت امام حسین سے پھر انکے غلاموں سے پھر انکے خادموں اور مقّلدوں سے حاصل کیا وہ فقر و معرفت کے کتنے اعلٰی و ارفع مقامات پر فائز ہوکر غوث،  قطب،  ابدال،  ابرار،  اخیار اور نقباء بن گئے اور حرفِ آخر ولی بن گئے یا علی کہنے والے.... جب ان غلاموں کے غلاموں کا اللہ کی نظروں میں یہ اعلٰی مقام ہے تو انکے آقاؤں کی معرفت کون بیان کرسکتا ہے سوائے اللہ اور رسول صلعم کے......... 
* نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment