Saturday 4 March 2017

شیعیانِ علی دراصل کون اور کس منزلت کے حامل ہیں

ازروئے قرآن حکیم کائنات کے سب سے پہلے شیعہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنکے نبی صاحبزادہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذرّیت سے حضور صلہ اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے اور انکے آباء و اجداد دینِ ابراہیمی پر فائز تھے اور روحانی،  باطنی،  نورانی،  عرفانی اور ظاہری طور پر اپنے دور میں انبیاء،بشیر،  نزیر اور صالحین تھے مگر وہی جو خوش نفس اور اوصافِ حمیدہ کے حامل تھے مثلاً ھاشم،  عبد المطلب،  ابو طالب اور عبداللہ- قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا شیعہ اور ابراہیم کے عاشقوں کو شیعیانِ ابراہیم قرار دیا.. شیعہ کے معنی عاشق،  پرستار،  محب،  حامی،  ناصر اور چاہنے والا کے ہیں- حضور صلعم کے شیعہ حضرت ابو طالب،  ملکہءعرب حضرت خدیجہ،  حضرت فاطمہ بنت اسد اور مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام،سیّدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ،  سردارانِ جوانانِ جنّت حضرات حسنین علیہ السلام، ام المصائب حضرت زینب اور اسیرِ کربلا حضرت ام کلثوم وغیرہ شیعیان رسول تھے بقول حضرت عائشہ حضور کے چار یار یا محبوب علی،  فاطمہ،  حسن اور حسین تھے. امّت مسلمہ کی کم علمی،  کم فہمی اور تنگ نظری ہے کہ وہ حضور کے آباء و اجداد کو انکا جائز مقام نہ دیکر حضور کی دلشکنی کا سبب بنتے ہیں جبکہ اوصافِ حمیدہ میں امّتِ رسول کا درجہ بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر ہے اور چہاردہ معصومین،  اللہ کے منتخب اور نامزد ائّمہ اثناء عشر، آلِ محمد،  محسنین،  مخلصین،  مصلحین،  صالحین،  صدّیقین،  مشاہدین،  شاہدین،  شاکرین،  صابرین،  عارفین،  سالکین،  اوصیاء،  اولیاء،صوفیاء اور عرفاء اور علماء باطن بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل ہیں-
 دراصل شیعہ لفظ امتِ مسلمہ کی پریشانی اور مذہبی تفریق کا سبب بنا ہوا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ حضور کے دورِ حیات میں گنے چنے شیعیانِ اھل بیت یا پنجتن پاک تھے مگر حضور شاہِ ولایت،  وصایت،امامت اور خلافتِ الیہّیٰہ مولا علی کاشیعہ کہکر حضرت بلال،  حضرت عمار یاسر،  حضرت سلمان فارسی،  حضرت ابو ذر غفاری،  حضرت حذیفہ یمانی،  حضرت سعید خدری،  حضرت ابو ایوب انصاری،  عبداللہ ابن عباس وغیرہ کو خطاب کرتے تھے بعد میں مولا علی حضرت اویس قرنی،حضرت میثم تمّار،  حضرت کمیل،  حضرت قنبر،  حضرت مالک اشتر اور مختار ثقفی کو شیعیانِ کہکر نوازتے تھے... یہ تو شیعیان اھل بیت، شیعیانِ آل محمد اور شیعیانِ علی اور کربلا کے شیعیانِ حسین کی فضیلت ہے انکے غلاموں کے غلاموں کے غلام کی خصوصیت ہے کہ وہ علمِ غیب رکھتے ہیں،  مردوں کو زندہ کرتے ہیں،  بیماروں کو شفا اور صحت دیتے ہیں،  جس وقت جو کہہ دیتے ہیں وہ ظہور پزیر ہوجاتا ہے... میری نظر میں اگر مسلک اور فرقہ کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو سارے اھل طریقت،  اھل حقیقت،  اھل معرفت اور اھل سلاسل اپنے اپنے دور کے شیعہ اثناء عشری اور صاحبِ کمال اور صاحبِ کشف و کرامت ہیں جو علی کے شیعوں اور غلاموں کا طرّہء امتیاز ہے
حضور کی شہادت کے امتِ مسلمہ بالترتیب شیعیان ابوبکر،  شیعیانِ عمر،  شیعیانِ عثمان،  شیعیانِ معاویہ اور شیعیانِ یزید کے زمرے میں شامل ہوگئے تاکہ شیعیان علی،  حسن اور حسین میں تفرقہ ڈال سکیں... مسلمان شیعوں کو حسین،  انکی آل اور اصحاب کا قاتل کہتی ہے مگر شیعیانِ معاویہ اور یزید کی سفاکیوں،  خونریزیوں اور قتل و غارتگری پر پردہ ڈال کر بھولے بھالے جاہل مسلمانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے
شیعہ کوئ مذہب و فرقہ نہیں کیونکہ حضور نے تلقین کی تھی کہ اھل بیت کی کشتی پر سوار نجات یافتہ اور جنّتی ہوگا اور جو بھی کشتی سے دور ہوگا گمراہ اور جہنمّی ہوگا... دوسری وصّیت ہے کہ میں برابر وزن کاقرآن کتاب اور اھل بیت عترت معلّمان اور وارثانِ قرآن چھوڑے جا رہا ہوں جو لوگ دونوں سے تمّسک رکھیں گے وہی اصلی امّتِ محمدی کے درجے پر فائز ہونگے... امت مسلمہ کے دو ہی فرقے اور مسلک ہیں---- اھل بیت کی کشتی پر سوار اور اھل بیت کی کشتی سے فرار- اھل سنّت کے چار مصّلے حنفی،  مالکی،  شافعی اور حنبلی ہیں یعنی ائّمہ اربعہ بھی آلِ محمد کی عظمت،  اہمیت،افادیت اور فضیلت کے قائل اور شیعیانِ آلِ محمد تھے یہ الگ بات ہے کہ خلافت،  ملوکیت اور بادشاہت ماحول اور سیاسی حالات میں کچھ سمجھوتے پر مجبور ہوئے،  کچھ نے ظلم کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور کچھ تقّیہ پر قناعت کرگئے.. ابوحنیفہ امام باقر اور امام جعفر صادق کے شاگرد تھے...... ایک مصلّیٰ امام جعفرصادق سے فقہ جعفریہ کے نام سے منسوب ہوا اور فرقہء امامیہ نے شہرت پائ.. انتہا پسندوں اور شدّت پسندوں کا ایک مصلّیٰ عبد الوہاب نجدی سے وہابیت کے نام سے وجود میں آیا حضور اکثر نجد کا رخ کرکے فرماتے تھے کہ مجھے نجد سے منافقت کی بو آتی ہے آج اھل سعود نے منافقت ثابت کردی ہے.. حضور کا اور آلِ محمد کا ایک ہی مصّلیٰ ایک ہی شریعت،  طریقت،  حقیقت،  معرفت،فقہ،  سیرت،  سنّت اور کردار ہے کیونکہ چہاردہ میں پہلا بھی محمد،  اوسط بھی محمد،  آخری بھی محمد اور کل کے کل محمد قیامت تک ہادی ہیں... یہ سیاسی اور خلافتی حالات تھے کہ فقہ محمّدی فقہ جعفریہ سے منسوب ہوگئ... ہمارا ایمان اور پختہ عقیدہ ہے کہ اھل بیت اورآلِ محمد اور اولیاء اللہ سنت و سیرت رسول پر عمل کرتے تھے اسلئے شیعہ کہلانے کا مجاز اسی کو ہے جو فقہ،  سنت اور سیرتِ محمد اور آلِ محمد پر عمل کرکے انکی اطاعت،  اتباع اور پیروی کرتا ہے
آج ہم شیعیانِ اھل بیت اپنا محاسبہ کریں کہ کیا واقعی ہم شیعیانِ علی کہلانے کے مستحق ہیں کیونکہ دوسروں کی طرح ہم بھی حسد، نفرت،  عداوت،  تعّصب،  بغض،  کینہ،  عناد اور تفرقہ جیسے صفاتِ رذیلہ میں مبتلا ہیں مسلکوں اور فرقوں کے اختلافات میں کردار اور اخلاق پنجتن پاک کو بالائے طاق رکھے ہوئے ہیں.... میں اپنے چودہ سو سال کے عرفانی،  نورانی،  باطنی اور روحانی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر اتنا ضرور کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ اسقدر طویل مدّت میں صرف 313 شیعہ نہیں ہوئے کہ امامِ عصر کا ظہور ہوجاتا اور دنیا قتل و غارتگری سے محفوظ ہوجاتی ہملوگ دراصل محّبانِ علی اور عزادارانِ حسین ہیں... بس... علی کے شیعہ کا کردار اور سیرت انبیاء کے کردار اور سیرت کی متقاضی ہے... کاش ہر محمّدی میرا درد محسوس کرکے صرف محمدی ہوجائے کیونکہ 13 معصومیں اور آلِ محمد بھی اور صالح اور وفادار اصحاب اور ازواج مطہرات بھی صرف محمّدی تھیں..... نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment