Sunday 5 March 2017

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں۔

 مجھے علم نہیں کہ معرفت کی معراج کا یہ نایاب اور انمول شعر کس کا ہے جس نے صرف دو مصرعوں میں اسرار و رموز کے بحرِ بیکراں کو کوزے میں بند کردیا ہے۔۔۔کاش کاش کاش!  انگلیاں بےچین ہیں تشریح و توضیح کےلئے مگر کوئ ناگن ملتی نہیں جسکے آگے بین بجائ جائے کیونکہ لوگ بین کے پیچھے پڑجائیں گے اس لے،  سر،  ساز اور آواز پر طعنہ زن ہوجائیں گے،  اخفی مسائل پوشیدہ ہی رہیں تو عافیت ہے۔۔۔احدیت اور صفاتِ واحدیت پردے میں ہی موزوں ہے ورنہ اعتراضات کی آندھیاں چلنے لگیں گی۔۔۔بہرحال آپکے فرستادہ بیش بہا شعر کےلئے بے حد ممنون ہوں۔۔۔۔نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment