Saturday 4 March 2017

نمونہء عمل

اعلانِ نبّوت کے چند روز بعد نبیء کریم صلعم ایک رات مکّہ کی ایک گلی سے گزررہے تھے کہ آپکو ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئ۔آواز میں اتنا درد تھا کہ آپ بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے۔دیکھا تو ایک حبشی نوجوان چکّی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہے۔آپ نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایاکہ میں ایک غلام ہوں ۔سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کےلئے دے دیتا ہے جسکو پیسنے میں ساری رات گزر جاتی ہے۔میں اپنی قسمت پررورہا ہوں  کہ آخر میں بھی تو گوشت پوست کا انسان ہوں میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند آتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی رحم نہیں آتا۔کیا میرے مقدر میں ساری عمر اسطرح رورو کے زندگی گزارنا لکھا ہے۔آپ حضور نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشّقت تو کم نہیں کراسکتا کیونکہ وہ میری بات نہیں مانے گا۔ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوںکہ تم سوجاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکّی پیستا ہوں۔غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سوگیا اور آپ چکّی پیستے رہے جب گندم ختم ہوگیا تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے۔دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر چکّی پیستے رہے تیسرے دن بھی یہی معمول رہا ار صبح کو خاموشی سے چلے گئے۔چوتھی رات اس غلام سے ضبط نہیں ہوا تو اسنے کہا اے اللہ کے نیک بندے آپ کون ہیں؟  اور میرا اتنا خیال کیوں کررہے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمدردی کے تحت کررہا ہوں اسکے علاوہ مجھے تم سے کوئ غرض نہیں۔کیا تمہیں علم ہے کہ مکّہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے میں وہی محّمد ہوں۔یہ سنکر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیں کیونکہ اتنا شفیق اور مہربان شخص  کوئ نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اسقدر خیال رکھے۔آپ نے اسے کلمہ پڑھایا اور مسلمان کر دیا پھر دنیا نے دیکھا کہ اس غلام نے تکلیفوں اور مشّقتوںکو برداشت کیا لیکن دامنِ مصطفیٰ نہ چھوڑا۔ انہیں جان دینا گوارا تو تھا لیکن اتنے شفیق اور مہربان نبی کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ تھا۔آج دنیا اس غلام کو بلالِ حبشی کے نام سے جانتی ہے جو حضور کے بے لوث اور محب غلام ہوئے اور رہتی دنیا تک عدیم المثال شضصیت بن گئے حتیٰ کہ وہ اسلام کے موذنِ اوّل ہوئے۔۔۔صرف یہی نہیں ایک دن بلال کو اصحاب نے اذان دینے سے رکوادیا کسی دوسرے نے اذان دی فجر کو تو صبح ہی نہیں ہوئ اللہ اور پنجتن پاک کو بلال کی اذان پسند تھی اسیلئے حضور کی شہادت کے بعد، بلال نے اذان ہی نہیں دی کیونکہ اذان میں کچھ تبدیلی کردی گئ تھی اصلاح کے نام پر جو بلال کو منظور نہیں تھا
مذکورہ واقعہ سے عبرت ملتی ہے کہ حضور نے محّبت،  شفقت،  اخلاق،  اتحّاد اور انسانی بھائ چارہ سے لوگوں کے دلوں کو جیتا ہے اور یہی روش اھل بیت،  آلِ محمّد،  اولیاء،  صوفیاء اور عرفاء نے جاری رکھی جو محبت کے علمبردار اور اتحاد کے مشعل بردار ہیں تعصّب،  نفرت، بغض، عداوت اور حسد کے طرفدار نہیں۔۔۔۔کاش امّت مسلمہ فرقوں اور مسلکوں کی مفاد پرستی اور دنیا پرستی سے آزاد ہوجائے اور خود کو صرف محمّدی اور آلِ محمّدی تصّور کرکے سفینہء نجات پر سوار ہوجائے۔۔۔۔آمین۔۔۔۔نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment