Sunday 5 March 2017

معرفتِ محمّد و آلِ محمّد صلہ اللہ علیہ و آلہ وسلم

مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ بتحقیق کہ اللہ احد اور واحد ہے- وہ وحدانیت میں یکتا و تنہا ہے پس اس نے ایک کلمہ سے تکلم فرمایا جو سب نور ہی نور تھا پھر اس نے اس نور سے محمد صلعم کو اور مجھکو اور میری ذرّیت کو خلق فرمایا پھر ایک کلمہ میں تکلم فرمایا جو سب روح ہی روح تھا پھر اللہ نے اس روح کو ہمارے ابدان میں ساکن کیا پس ہم روحِ خدا اور اسکے کلمات ہیں اور ہمارے ہی سبب سے ہم کو مخلوق سے پوشیدہ رکھا اور ہم ہمیشہ اسکی رحمت کے سبز سایوں میں رہے- اس وقت نہ آفتاب تھا نہ ماہتاب نہ لیل و نہار اور نہ کوئ آنکھ تھی کہ دیکھ سکے- ہم اس وقت اسکی بندگی اور تسبیح و تقدیس بجا لاتے اور اسکی بزرگی کا اقرار کرتے تھے یہ اس وقت تھا جبکہ کوئ مخلوق خلق نہیں ہوئ تھی اسنے انبیاء سے اس بات پر میثاق لیا کہ ہم پر ایمان لائیں اور ہماری نصرت کریں چنانچہ ارشاد باری ہے کہ جس وقت خدا نے انبیاء سے عہد لیا تھا کہ جب تمہیں کتاب و حکمت عطا ہوگی اور ایک رسول تمہارے پاس والی چیزوں کی تصدیق کرتا ہوا آئے گا تو تم لوگ ضرور اس پر ایمان لانا اور اسکیی مدد کرنا-
 مولا علی نے فرمایا کہ علم تین بالشت ہے پس جو پہلی بالشت تک پہونچا متکبر ہوگیا اور دعوٰی کرنے لگا اور جو دوسری بالشت تک پہونچا متواضع ہوگیا اور اپنے کو ذلیل سمجھنے لگا اور جو تیسری بالشت تک پہونچا فقر اختیار کیا اور فنا ہوگیا اور اسکو اس بات کا علم ہوگیا کہ وہ کچھ نہیں جانتا
اگر مولا کا یہ فرمان عارفانہ نقطہءنظر سے دیکھا جائے تو مولا نے بندوں کو دعوتِ معرفت دی ہے یعنی پہلی بالشت سے مراد علمائے ظاہر ہیں دوسری بالشت سے مراد علمائے باطن اور تیسری بالشت سے مقصود علمائے حقیقت و معرفت ہیں یعنی ف سے فنائیت،  ق سے قربانیءنفس ی سے یاد و ذکر الٰہی اور ر سے رضائے و قربِ الٰہی یعنی مکمل فقیر جو مشائخِ معرفت سے بڑا اور عظیم درجہ ہے-
 مولا علی کے کلماتِ قصار بارہ ہزار سے زائد ہیں جن میں سے چند ارشادات معرفت،  ذکر و فکر،  صلٰوۃ دائمی،  عالم صغیر و کبیر و شہود سے متعلق ہیں مثلاً
جس نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کی اس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کی
تمام حجابات حدوث امکان میرے اور واجب الوجود کے درمیان سے اٹھا دئے جائیں تو جس علم و یقین اور معرفت کی انتہاء پر میں فائز ہوں اس میں کوئ زیادتی نہ ہوگی یعنی آپکے سامنے کوئ حجاب تھا ہی نہیں-
 ہر نفس ھو ذکرِ خفی میں مشغول ہے وہ زندہ ہے اور ہر وہ نفس جو ذکرِ خفی سے غافل ہے وہ مردہ ہے
تزعم انک  جسمُ صغیر+ دنیک انطری العالمُ الاکبر یعنی تجھ کو گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے حالانکہ ایک بڑا عالم تجھ میں سمایا ہوا ہے لہٰذا انسان کو اپنے وجود کی معرفت ہونا لازمی ہے جس کا علم روحانی مرشدِ کامل اپنے طالبین کو عطا کرتا ہے-
 مولا علی نے حقیقتِ ذکر و طریقہءذکر" نہج االاسرار" میں منکشف کیا ہے کہ اسکا ذکر کامل طریقہ سے اسطرح کرو کہ تمہارا قلب تمہاری زبان کے موافق ہو اور تمہارا ضمیر تمہارے ظاہر سے مطابق ہو تم اس وقت تک حقیقتِ ذکر کو ادا نہیں کرسکتے جب تک کہ خود کو ذکر میں بھول نہ جاؤ اور اپنے امر میں گم نہ ہوجاؤ- اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ اپنے رب کا ذکر تضریح اور پوشیدگی کے ساتھ قلب میں اسکے معنی کا تفکر کرتے ہوئے کرو یہاں تک کہ اسکا ذکر تمام اعضاء پر محیط ہوجائے اور تو اس میں مستغرق ہوجائے بہ تحقیق کہ اسکا ورد وارد ہوتا ہے اور لاالٰہ کے ساتھ نفی کرتا ہے اسکی محبت کو قطعی قرار دیتا اور اللہ کو الّا اللہ کے ذریعے ثابت کرتا ہے اور قلب کو نفسانی خواہشات سے خالی کرکے روحانی مشاہدات کی طرف مشغول کردیتا ہے..... مرتب نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment