Sunday 5 March 2017

نجات کا دارومدار عقائد پر ہے اعمال پر نہیں

 یہ امر مسلّم ہے کہ نجات ہی کی غرض سے اللہ تعالٰی نے دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء و مرسلین بھیجے اور حضور صلعم آخری نبی اور رسول ہیں جنکی نبّت و رسالت قیامت تک کےلئے ہے- ظاہری طور پر وہ بحیثیت ذات محمد بن عبداللہ آپ پردہ فرماگئے مگر بحکم اللہ انہوں نے اپنے بعد بارہ ھادیوں کو قیامت تک ہدایت کےلئے نامزد اور مخصوص فرمادیا جو بہ اعتبار صفت اپنے اپنے زمانے کا صفاتی محمد ہے کیونکہ حضور کی متفقہ حدیث ہے کہ " ہم میں سے اوّل بھی محمد،  اوسط بھی محمد،  آخری بھی محمد غرضکہ ہم کُل کے کُل محمد ہیں"- یعنی اپنے اپنے دور میں حضور کے بارہ خلفاء،  اوصیاء،  ائمّہ،جانشیں سب قریش اور بنی ہاشم سے ہونگے یہ الگ بات ہے کہ امتِ مسلمہ نے اسی طرح حدیث کی بے حرمتی کرکے" بنی ہاشم" کو حذف کرکے اپنے مطلب کے خلفاء منتخب کرلئے جنکا تعلق قریش سے تھا اور جن میں معاویہ اور یزید بھی شامل ہیں جبکہ قولِ الٰہی ہے کہ امامت ابراہیم کی ذرّیت میں میں رہےگی مگر یہ منصب ظالموں کو نہیں ملے گا مگر امتِ مسلمہ کو چڑھتے سورج کی پوجا میں نہ اللہ کے حکم کی پرواہ رہی اور نہ ہی رسول کی وصّیت کی اور انہوں نے رسول کی ضد میں اجماع و شورٰی کے ذریعے اللہ و رسول کی خلاف ورزی کرکے سیاسی مصلحت اور آلِ محمد کی ضد،  حسد،  تعّصب،  کدورت اور دشمنی میں بنی ہاشم کو چھوڑ کرقبیلہءقریش سے یکے بعد دیگرے خلفاء منتخب کرلئے اور حقوقِ آلِ محمد غصب کرکے اسلام کو حق و باطل یعنی حسینی و یزیدی اسلام میں منقسم کردیا - اسی طرح اپنے مفاد میں صحیح حدیثِ ثقلین" میں تم میں دو گرانقدر برابر وزن کی چیزیں--- قرآن کتاب اور اھلِ بیت عترت معلمّان چھوڑے جارہا ہوں دونوں سے متسمک رہوگے تو گمراہ نہیں ہوگے حتٰی کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کروگے"- اس حدیث کو بھی امت نے اھلِ بیت کی جگہ سنّت کردیا جبکہ مقام فکر ہے کہ جو قرآن اور سنّت نہیں مانے گا تو مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا تو گمراہی کا کہاں مسئلہ ہے،  حضور کی وفات کے وقت کہنے والے نے بغض آلِ محمد میں اپنے عقیدے کا اعلان کردیا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے اھلِ بیت سے انکاری فرقوں کی بنیاد اسی قول پر مبنی ہے- تیسری حقیقت یہ کھل کر آی کہ مخالفینِ اھلِ بیت سفینہءاھل. بیت پر سوار نہیں ہوئے اور کشتی سے دور. رہے جبکہ حضور کی متفقہ حدیث پاک ہے" میرے اھل بیت کی مثال کشتیءنوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے دور ہوا غرقاب ہوگیا- چوتھی حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کے حکم سے حضور نے اجرِ رسالت میں مودت و محبت اقرباء یعنی اھل بیت عترت سے مودت و محبت طلب کیا جو فرض الفرض اور واجب الواجب ہے مگر امتِ مسلمہ نے اجرِ رسالت کی ادائیگی ظلم و ستم،  وحشت و بربریت،حق تلفی و غصبیت کے ذریعے کی اور ان عقائدِ باطلہ کے ساتھ اعمال کی بنیاد پر جنّت کے ٹھیکیدار اور دعویدار بنے بیٹھے ہیں... یہ ایسا ہی ہے کہ توحید میں شرک، اللہ کے عدل سے انکار،  رسالت پر شک،  امامتِ الٰہیہ سے انکار اور قیامت کا مذاق اڑاکر دن رات نماز،  روزہ،  تہجّد،  سال میں حج و زکواۃ وغیرہ بکثرت اعمال بجالائے مگر عقائد باطلہ و گمراہ کن ہوں تو ایسوں کی ہدایت و نجات کیا معنی؟ 
 اسیلئے نجات کا دارومدار عقائد حمیدہ پر ہے عقائدِ باطلہ پر نہیں- ہر مذہب کے کچھ اصول یعنی جڑیں اور کچھ فروع یعنی شاخیں ہوتی ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ جڑوں کے بغیر شاخوں کا تصور بھی محال ہے اور اگر جڑ ہی سوکھ یا سڑ جائے تو شاخوں پر پھول پھل نہ آئیں گے اور نہ اس درخت سے کوئ فیضیاب ہوگا- درخت کے وجود و فوائد کا انحصار جڑ پر ہوتا ہے شاخوں پر نہیں- اسیلئے اگر عقیدہ صحیح نہیں تو عملِ کثیر بھی بے فائدہ اور بیسود ہے اور اگر عقیدہ صحیح ہے تو قلیل عمل بھی مقبول ہے اس سلسلے میں علاّمہ حلّی کی کتاب" احسن العقائد" میں منقول ہے" اصولِ دین وہ ہیں جن پر دین کی بنیاد قائم ہے اگر ان میں سے کسی ایک کو علیٰحدہ کرلیا جائے تو دین ہی باقی نہ رہے"- مزید فرماتے ہیں" عبادات و اعمال کی قبولیت اور نجاتِ اخروی کا دارومدار اصولِ دین،  اسلام کی معرفت اور انکے اعتقاد پر ہے- اصول دین کا اعتقاد و عدم اعتقاد ہی ثواب دائمی و عذاب دائمی کا سبب ہے"- سورہ طور کی21 آیت میں ارشاد خداوندی ہے " اور جو لوگ ایمان لائے اور انکی اولاد نے ایمان میں انکا اتباع کیا ہم انکے ساتھ انکی اولاد کو بھی ملادیں گے"- کتاب المومن میں امام محمد باقر ع کایہ قول موجود ہے" قیامت کے خداوند عالم اپنے مومن بندے کو روکے گا اور اسکا ایک ایک گناہ گنوائے گا پھر انہیں معاف فرمائے گا اور اسکی خبر کسی ملک مقرب کو ہوگی نہ کسی نبی مرسل کو"- علامہ حلّی مزید رقمطراز ہیں کہ رسول اللہ کی امّت کے73 فرقوں میں سے 72 فرقوں کا ناری اور ایک فرقے کا ناجی ہونا فرقوں کے اعمال کے لحاظ سے نہیں بلکہ عقائد کے اعتبار سے ہے اس لئے کہ اعمال کے لحاظ سے کسی فرقے کے کل افراد کا ناری یا ناجی ہونا عقل کے خلاف ہے- کسی فرقے کے تمام افراد اعمال میں متحد نہیں ہیں- جب اعمال کے لحاظ سے کسی فرقے کے افراد میں مساوات نہیں ہے تو جزا و سزا میں مساوات کیسے ہوسکتی ہے؟  پس امت محمدیہ کے ہر فرقے کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھے کیونکہ اعمال میں غلطیاں قابل عفو ہیں لیکن وہ عقائد جن پر مذہب کی بنیاد قائم ہے اگر غلط و باطل ہیں تو اس. غلطی کے عفو کا امکان نہیں ہے- اسیلئے امتِ مسلمہ کے ہر فرقے کے ہر فرد کو احادیثِ نبوی اور معصومین کے فرمودات کی روشنی میں پہلے اپنے عقائد کی درستگی اور پھر اپنے اعمالِ صالحہ کی جانب متوجہ ہونا ہدایت و نجات کا سرچشمہ ہوگا..... نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment