Sunday 5 March 2017

اسلامی تصّوف میں صوفیاء کے پانچ طبقات

حضور صلعم کے زمانے میں چونکہ اھلِ بیت کے بعد صحابہ کا سب سے بڑا درجہ تھا اسیلئے مسجدِ نبوی کے چبوترے پر دن رات نشیب و فراز میں زندگی گزارنے والے قلیل تعداد میں اھلِ طریقت،  حقیقت و معرفت اصحابِ صفّہ کہلاتے تھے صوفی یا ولی یا عارف نہیں- وہ صوف لباس زیب تن کرتے تھے اسلئے اصحابِ صفّہ کہلاتے تھے وہ لوگ حضور کے مرید و طالب تھے اور مولا علی روحانی،  باطنی اور عرفانی خلیفہ کی حیثیت سے. انہیں علمِ لدنّی کی تعلیم اور عرفانِ الٰہی کی تربیت کرتے تھے جن میں حضرت بلال،  حضرت سلمان فارسی،  حضرت ابوذر غفاری،  حضرت سعید خدری،  حضرت مقداد،  حضرت قنبر،  حضرت کمیل،  حضرت میثم وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں اور اصحابِ صفّہ دن رات یادِالٰہی میں مست و بیخود رہتے تھےنیز ظاہری عبادات کے علاوہ باطنی،  روحانی اور عرفانی عبادات مثلاً اذکار،  اشغال و مراقبہ وغیرہ میں مگن رہتے تھے گرچہ اس زمانے میں وہ صوفی نہیں کہلاتے تھے مگر صوفی صفت تھے اور ان میں سے بیشتر اصحاب کو حضور اپنی حیاتِ طیبہ میں شیعیانِ علی کہ کر خطاب فرماتے تھے حتٰی کہ سلمان فارسی کو اپنے اھلِ بیت میں شمار فرماتے تھے- مولا علی کے چار روحانی خلفاء تھے دو حسنین علیہ السلام اھل بیت سے تیسرے حضور کے غلام زید کے بیٹے کمیل اور چوتھے حضور کی کنیز کے بیٹے خواجہ حسن بصری جنکے بارے میں مشہور ہے کہ انکی ماں کام میں مشغول تھیں اور انکا بچّہ حسن بصری رورہا تھا اتنے میں گھر میں داخل ہوئے اور روتے بچّے کو گود میں اٹھالیا جسکی برکت سے حسن بصری نے ولی اللہ کی حیثیت سے اتنا بلند مقام پالیا کہ امام العارفین اور سیّد الاولیاء نے انہیں خلافت دی- اھلِ معرفت کے سارے سلاسل حضرت امام حسین اور خواجہ حسن بصری سے آج تک جاری و ساری ہیں- تابعین میں حضرت اویس قرنی جیسے عاشقِ رسول تھے جنہوں نے حضور کی ظاہری زیارت نہیں کی تھی مگر باطنی و روحانی بیعت کی بناء پر وہ اپنے مرشد حضور صلعم سے فنا فی الشیخ کے درجے پر غیبی طور پر فائز تھے- تبع تابعین میں معروف اولیاء و اصفیاء معروف کرخی،  حبیب عجمی،  فضیل بن عیاض وغیرہ تھے- اسطرح حضرت امام علی رضا علیہ السلام تک غیر آلِ محمد اور غیر سادات ائمّہ طاہرین کی روحانی بیعت کی بدولت اپنی باطنی عبادات کے ذریعے عرفانی پیاس بجھاتے رہے اور عرفان کی منازل ائمہ اطہار کی رہنمائ میں طے کرتے گئے- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فقہءمحمدیہ کی بنیاد عملی طور پر رکھی جسے انکے شاگردوں نے فقہءجعفریہ سے منسوب کیا- اس زمانے تک جتنے عرفاء ائمہ اطہار سے تعلیم و تربیتِ معرفت حاصل کرتے تھے کسی ظاہری فقہ کی عدم موجودگی میں فقہءمحمدی یعنی سنت و سیرت محمدی و آلِ محمدی کی تقلید و پیروی کرتے ہوئے" عطیع اللہ و عطیع الرسول و اولوالامر منکم" کی اطاعت و اتباع کرتے تھے یعنی ائمّہ اطہار کی- اسوقت تک کے عرفاء فقہءمحمدیہ کے شرعی مسائل قرآن و احادیثِ محمد و آلِ محمد کے مطابق عمل کرتے تھے اسکے بعد امام باقر اور امام جعفر علیہ السلام کے شاگرد ابو حنیفہ نے اجتہاد کرکے قیاس کو محور بنایا اور انک شاگردوں نے فقہءجعفری سے انحراف کرکے فقہء حنفیہ رائج کی پھر یکے بعد دیگرے مالکی،  شافعی اور حنبلی کی فقہیں منظر عام پر آئیں اور آخر میں عبد الوہاب نجدی کی فقہءوھابیہ آلِ محمد کی ضد و دشمنی میں رائج کی گئ- دریں اثناء اھل طریقت اور اھلِ سلاسل کے پانچ طبقات تاریخِ اسلام کے افق پر نمودار ہوچکے تھے- پہلا طبقہ ولیوں،  صوفیوں اور عارفوں کا وہ تھا جو چھ فقہوں کے رواج پانے سے قبل فقہء محمدیہ یعنی قرآن و سنت و سیرت محمد و آلِ محمد کو شریعت و طریقت کی منازلِ مقصود تصور کرتا تھا- فقہوں کے رائج ہونے پر دوسرے طبقے نے روش بدلی اور شریعت فقہاء سے لی اور معرفت ائّمہ اطہار سے جبکہ تیسرے طبقے نے شریعت فقہاء سے لی اور سلاسل و طریقت میں اھلِ سنّت کی فقہوں اور عقیدوں کے مطابق غیر عرفانی خلفاء اور صحابہ کو اھلِ معرفت میں شامل کرلیا مگر معرفت کا منبع شاہِ ولایت مولا علی کو ہی برقرار رکھا چوتھا طبقہ خود کو تصّوفِ اھلِ سنّت الجماعت کے نام سے مشہور کرانے میں مصروف ہوگیا اور پنجتن پاک کی افضلیت،  اہمیت،  افادیت و قدرو منزلت کے ساتھ چار خلفاء راشدین کو حضور کے چار یار سے تعبیر کرنے لگا اور پانچواں طبقہ صوفیوں کا وہ عالمِ وجود میں جانے رعوٰی کیا کہ نقشبندیہ سلسلے مولا علی سے نہیں بلکہ حضرت ابوبکر سے شروع ہوا ہے مگر یہاں نقشبندی سلسلے کے بانی سید بہاء الدین نقشبند نے خود وضاحت فرمادی کہ نسبی سلسلہ حضرت ابوبکر سے ہے مگر روحانی،  باطنی و عرفانی شجرہ مولا علی سے ہی ملتا ہے غرضکہ اسلامی تصّوف جس نے خود کو یونانی،  ھندوی،  بدھ مت اور ایرانی عصّوف اور درویشی نیز رھبانیت سے آلودہ نہیں ہونے دیا مگر اھلِ بیت و آلِ محمد کی ضد،  عداوت،حسد،  مخاصمت اور ہماری،  سیاسی انقلابات اور حکمرانوں کی یاری میں سرشار دنیا پرست،  خود پرست،  منصب پرست اور نفس پرست نام نہاد خودساختہ صوفیوں نے ایران و عراق کے علمائے ظاہر کے ساتھ سودے بازی کرکے عقائد اھلِ بیت و چہاردہ معصومین و آلِ محمد کو کاری ضرب. لگایا اور جھوٹی حدیثوں اور روایتوں کا سہارا لیکر اجتہاد کے نقاب میں مجتہدین نے بھولے بھالے شیعوں کو معرفت اور تصوف کے اس انمول اور بیش بہا خزانے اور سرمائے سے محروم کردیا جو اھلِ بیت و آلِ محمد سے قیامت تک منسوب رہیگا
* نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment