Sunday 5 March 2017

سنت صوفی مہاتما محمّد کبیر.... انسانیت کے مشعل بردار

ہندستان کے شہر بنارس کے شہرہ آفاق سنت صوفی مہاتما محمد کبیرمذہبی،  سماجی اور انسانی مساوات کے علمبردار، قومی یکجہتی،  اتحاد،  محبت اور اخوت کے مشعل بردار،  مذاہب و عقائد کے روادار،  ذات پات کے خاتمے کے طرفدار اور نشہء وحت میں سرشار قرونِ وسطیٰ کے مشہور و معروف عظیم المرتبت ہندستانی صوفی،  شاعر اور موسیقار تھے- انکا وجود سیکولرازم،  انسان دوستی،  فرقہواران امن و اتحاد اور یکجہتی کےلئے تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے- انہوں نے اپنے فلسفہء وحدت،  اشعار اور شاہکار دوہوں کے ذریعے اور اتحاد کے کے پیغام کو عام کرکے ہمارے عظیم الشان  موروثی،  تہذینی و ثقافتی اخوت کو ازسرنو جلا بخشی ہے- رواداری اور بھئ چارگی پر مبنی کبیر کے افکار،  نظریات،  تصورات اور خیالات آج بھی فرقانہوارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کےلئے مشعلِ راہ ہیںِ- انہوں نے انسانی سماج میں میں ہونے والی ناانصافی،  نابرابری،  ظلم و استبداد،  مذہنی اور مسالکی تعّصب اور استحصال،  نسلی و لسانی امتیاز کی لعنتوں کے خلاف جہاد کیا کیونکہ وہ ان برائیوں اور لعنتوں کو انسانی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رگاوٹیں تصور کرتے تھے-انہوں نے مطلق العنانیت،  شہنشاہیت اور طبقاتی نظام کو بھی مطعون کیا- انکی ساری زندگی مجاہدانہ رہی اور مساوات اور یکسانیت کا تمام عمر درس دیا-انہوں نے اپنے فلسفہء وحدت کے ذریعے تمام انسانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور ملّاؤں اور پنڈتوں کے استحصال،  نفرت انگیزی،  بغض،  کینہ،  حسد،  عداوت کے خلاف برسرپیکار رہے-انکی زندگی کا واحد مقصد انسانی سماج میں امن و محبت و خوت،  مساوات،  صلح و رواداری کو فروغ دینا تھا-آج کے متعصب دور اور فرقہ وارانہ ماحول میں کبیر کی انسانیت نوازی کی ضرورت،  اہمیت و افادیت اور بھی زیادہ بڑھ گئ ہے
کبیر بنارس یا اسکے اطراف میں تقریباً 1398 ء میں پیدا ہوئے- انکا 600 سالہ جشن تزک و احتشام سے منایا جاچکا ہے- انک زندگی کے تفصیلی اور معتبر حالات دستیاب نہیں ہیں- جیسا کہ اکثر اولیاء،  صوفیاء،  عرفاء اور سنتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور انکی حیات عہدِ پارینہ کی داستان بنکر گمنامی کی نذر ہوجاتی ہے- پیدائشی طور پر یا تو وہ مسلمان تھے یا کسی ھندو برہمن خانوادے میں جلوہ افروز ہوئے تھے لیکن بدقسمتی سے انکی بیوہ ماں نے انہیں چھوڑ دیاتھا- روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بنارس کے مضافات میں ایک مسلم جوڑے نیرو اور نمِّا نے لہارا ٹاٹا جھیل میں ایک دیو قامت کنول کے پتّے پر ایک نوزائیدہ بچّے کو تیرتے دیکھ کر اٹھالیا تھا جو بے اولاد تھے اور گورے چٹّے ہنس مکھ بچّے کو گود لیکر انہوں نے خدا کی طرف سے انمول تحفہ جان کر. کبیر کی سگے والدین کی طرح پرورش و پرداخت کی- اسطرح غریب مسلم جولاہے نے انکا نام کبیر رکھا.اسلامی اصطلاح میں کبیر کے معنی عظیم یا خدا کے ہیں- ایک قاضی نے قرآن پاک سے یہ نام نکالا تھا- اپنے ایک دوہے میں کبیر کہتے ہیں
کبیرا تو ہی کبیرو تیرے نام کبیر+ رام رتن تب پائیے جب پہلے تجانے سریر
 یعنی تم عظیم ہو،  تم وہی ہو،  تمہارا نام کبیر ہے+ رام رتن کو اسی وقت پاؤگے جب جسمانی وابستگی سے قطع تعلق کرلوگے-
 ھندو اور مسلمان دونوں ہ. ی عرصہ دراز سے  ایک عظیم صوفی اور جانباز مصلح کی حیثیت سے کبیر کی تعلیمات،  انکے افکار و نظریات کو مشعل راہ بنائے ہوئے ہیں- مسلمان انہیں عزت و احترام سے محمد کبیر شاہ اور ھندو  انہیں باباجی کبیرداس کے نام سے یاد کرتے ہیں- انکی زندگی بےشمار کراماتی اور کرشماتی واقعات سے پر ہے- انہوں نے اندازاً 120  سال کی طولانی عمر پائ تھی- خیال کیا جاتا ہے کہ1518 ء میں انکی موت یو. پی کے گورکھپور کے مگھر مقام پر ہوئ تھی- کہا جاتا ہے کہ انکے انتقال کے بعد انکی لاش پر ھندؤں اور مسلمانوں نے تلواریں کھینچ لی تھیں کیونکہ مسلمان تجہیز و تدفین کرنے کے ددعویدار تھے تو ھندو انک لاش کو نزرِ آتش کرنے پر آمادہ تھے- اس تنازعے کا فیصلہ اسطرح ہوا کہ کرشماتی طور پر کبیر کی لاش پھولوں کے ایک ڈھیر میں تبدیل ہوگئ اور پھولوں کو فریقین نے برابر برابر بانٹ لیا اسطرح ھندو رسم بھی ادا ہوگئ اور اسلامی رسم بھی اور باہمی  میل ملاپ کی فضا بحال رہی اور فرقہ وارانہ تنازعہ اتحاد و محبت و اخوت اور کرامت کی وجہ سے قائم رہی- اب مگھر میں امِلی کے ایک درخت کے نیچے کبیر کامزار ہے اور بنارس میں ایک مٹھ ہے جو کبیر چورے کے نام سے مشہور ہے اور اسطرح ھندو اور مسلم عقیدتمندان مزار اور سمادھی کی زیارت کرکے اتحاد کا نمونہ پیش کرتے ہیں- 
کبیر قطعی امّی تھے اور کبھی کاغذ اور قلم کو ہاتھ نہیں لگایا تھا مگر انکے اشعار،  دوہے اور بھجن بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں- انہوں نے کتابِ زندگی کا مشاہدہ کیا،  برسہا برس تک سادھؤں،  سنتوں،  صوفیوں اور مختلف مذاہب و عقائد کے رہنماؤں کی صحبت اختیار کی- بنارس چونکہ روحانیت کا گہوارہ تھا اسلئے صوفی ازم،  بدھ ازم،  جین ازم اور دیگر مذاہب کے مبلّغین اور معتقدین اور سالکین بنارس کا دورہ کرتے رہتے تھے جس سے کبیر کی باطنی،  روحانی اور عرفانی قوّت میں اضافہ ہوتارہا- مسلمان کے یہاں پرورش پانے کی وجہ سے انہیں اسلامی عقائد کا پورا علم تھا- بچپن میں ہی مشہورو معروف،  روشن خیال اور وسیع النظر  روحانی گرو و رہبر رامانند کے معتقد ہوگئے جنکے پاس مختلف عقائد کے لوگ جوق در جوق تعلیمات اور گیان کےلئے جمع ہوتے تھے- کبیر کی خوش نصیبی تھی کہ انکی مریدی نصیب ہوگئ اور پیر و مرشد و گرو کی عرفانی تربیت میں انکی روحانی عظمت میں چارچاند لگ گئے- اگرچہ گوسوامی رامانند کے کبیر مرید ہوگئے تھے مگر انہوں نے انکا مذہب قبول نہیں کیا بلکہ یوں کہا جائے کہ انہوں نے ظاہری طور پر کوئ مذہب قبول نہیں کیا تو کوئ مضائقہ نہیں- انہوں نے شریعت کو پھلانگ کر طریقت،  حقیقت اور معرفت کے مقامات کو عبور کرکے باطنی،  روحانی،  بورانی اور عرفانی طور پر اللہ کی احدیت،  واحدیت اور صمدیت کو تسلیم کرکے سِّرِ وحدت کانشہ چکھ لیا تھا اور آخری رسول حضرت محّمد مصطفیٰ،  مرتضیٰ،  مجتبیٰ صلہ اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی عظمت کے حددرجہ معترف تھے جس کا اندازہ انکے مشہور و معروف اشعار سے لگایا جاسکتا ہے
عدد نکالو ہر چیز سے+ چو گّن کرلو وائے+ دو ملاکر 5 گن کرلو
بیس کا بھاگ لگائے- باقی بچے کو 9 گن کرلو+ اس میں دو اور ملائے+ کہت کبیر سنو بھائ سادھو+ نام محمّد آئے
یعنی کوئ بھی نام کسی بھی زبان کا کسی بھی مذہب کا یا کسی بھی زمانے کا منتخب کریں اور حروف ابجد کے حساب سے اس نام کے مجموعے کو جوڑ لیں مثلاً زین کا عدد نکالئے جو 107 ہوتا ہے اور4  سے ضرب کرنے پر 428 ہوتا ہے اب اس میں2 جوڑ دیں تو 430 بنتا ہے پھر اسکو 5 سے ضرب کرنا ہے 2150 ہوتے ہیں جسے 20 سے تقسیم کرنا ہے اب 9 سے باقی بچے کو ضرب کرکے اس میں 2 جوڑ دیں تو 92 آئیگا جو نام محمد کا حروف ابجد ہے
اسی طرح دنیا کی کسی بھی زبان میں کسی بھی شئے کے نام کو حروف ابجد کے حساب سے کبیر کے فارمولے کے تحت نکالئے خواہ اللہ،  ایشور،  اوم،  کرسی،  درخت،  قرآن وغیرہ.... آخر میں بچے کا 92 یعنی محّمد.... اب اس سے زیادہ محمدیت صرف کبیر جیسا محمّدی ہی ثابت کرسکتے ہیں جو محبت،  امن، اخّوت،  اتحاد ، اخلاق اور اوصافِ حمیدہ کے پیکر تھے
دراصل کبیر کے عقائد میں اسلام اور ھندوازم کا گہرا امتزاج تھا- وہ اللہ اور ایشور کو ایک ہی ناکار مانتے تھے اور خدا کو محبت اور محبت کو خدا جانتے تھے اسیلئے وہ اپنے گرو رامانند کی خالص بھکتی تحریک سے بھی منحرف ہوگئے تھے- انہیں تصّوف اور ویدانت دونوں ہی فلسفوں کی اچھی اور گہری معلومات حاصل تھیں- انہوں نے ذات پات کی تفریق اور بت پرستی کے نظرئے کو مسترد کیا اور تمام مذاہب و عقائد میں یکسانیت اور اتحاد کا درس دیا- انہوں نے سکھ دھرم کے بانی گرونانک کو بھی کافی متاثر کیا- کبیر نے خاندانی زندگی کو ترک نہیں کیا،  گوشہ نشینی یا رھبانیت نہیں اختیار کی- وہ شادی شدہ تھے اور اوسط خاندان کے فرد کی طرح سماجی،  معاشرتی اور اخلاقی فرائض  انجام ریا کرتے تھے- انکی زندگی کا مقصد اور نصب العین خدمتِ خلق تھا... وہ کہتے ہیں
اے تم خدا کے بندے،  مصیبت میں ادھِر اُدھر مت بھٹکو،  ییہ دنیا ایک بلدیاتی میلے کی طرح ہے،  جہاں کوئ بھی تمہاری مدد کو ہاتھ نہیں بڑھائے گا
اللہ پاکوں میں پاک اور اطہر ہے،  لیکن جو شک کرتا ہے،  کچھ اور دیکھتا ہے،  کبیر وہ جو سبھوں پر رحیم و کریم ہے،  کی راہ چلتا ہے،  وہی تنہا اسی کو جانتا ہے
خود کو کبیر نے ھندو یا مسلم ماننے سے انکار کردیا تھا
" ھندو کہو تو میں نہیں،  مسلمان بھی نہیں+ پانچ تتو کا پوتلا، گیّبِی کھیلے ماہیں".... میں نہ ھندو ہوں نہ مسلمان،  میں غیب کے کھیل میں پانچ عناصر کا ایک پتلا ہوں یعنی آگ،  مٹّی،  پانی،  ہوا اور صفا-
 کبیر نے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو لازمی مانا ہے- بھکتی کا کوئ دوسرا شاعر اس احساس اور شعور میں کبیر کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا-
" سّرگن کی سیوا کرو، نِرگن کا کرو دھیان+ نِرگن سّرگن  کے پرے،  تُہیں ہمارا دھیان"
 کبیر نے منصور کی طرح " انا الحق" نہیں کہا لیکن انا الحق کا سارا جذبہ  ان دونوں مصرعوں میں موجود ہے" نِرگنُ آگے سرگُن ناجے،  باجے سوُہنگ تورا"-  یعنی ذات کے سامنے صفات ناچ رہی ہیں اور انا الحق کا ساز بج رہا ہے- مسلم روایے میں کبیر صوفی مرشد تقی کے مرید تھے جبکہ کبیر نے اپنی نظموں میں رامانند کو گرو مانا ہے- مذکورہ بالا انا الحق کہنے کا حق صرف اھلِ حق و اھلِ باطن کو ہے اھلِ ظاہر کو نہیں کیونکہ معشوق کو بے پردہ کرنے کی سزا موت ہے- اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ عبادت ایسی حضوریء قلب سے کرو کہ گویا مجھے دیکھ رہے ہو اگر دیکھنے کی تاب نہیں تو اس یقین سے کرو گویا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اسیلئے شاہ ولایت مولا علی اور انک روحانی،  باطنی،  عرفانی جانشین اور خلفاء اولیاء کرام موجود کو چشمِ ظاہر و باطن دیکھے بغیر عبادت نہیں کرتے تھا- جسے اھلِ باطن جشنِ عروسی سمجھتے ہیں اسے اھلِ ظاہر کفر و شرک اور سزا قرار دیکر زندیقیت کا مستحق تصّور کرتے ہیں اسیلئے منصور کو دار پر علماء ظاہر نے چڑھوایا،  شمس تبریز کی کھال کھنچوائ،  شہید سرمد کی گردن اورنگزیب نے کٹوائ- ہر دور میں علم الیقین،  عین الیقین،  حق الیقین اور ھوا الیقین کے مابین شریعت اور معرفت کی معرکہ آراء میں لاکھوں بے گناہوں کا خون ماضی اور حال میں بہا ہے-
 کبیر تزکیہءنفس،  تصفیہءقلب اور پاکیزگی کے قائل تھے،  سماجی بیداری کے علمبردار تھے- اسی سماجی بیداری نے انہیں زندہ جاوید بنادیا ہے- انکے نغمے،  دوہے اور گیت ابدی ہیں- انہوں نے مذہب،  سماج اور زندگی کی ظاہرداریوں کو تیاگ دیا تھا- اندھے عقائد،  مذہبی رسومات اور تعلقات کی مذمت کی ہے- ذات پات کے نظام،  ملّائیت اور پنڈٹیٹ سی ازلی بیر تھا- خداپرستی اور انسانیت دوستی کے ذریعے انہوں نے سماج میں انقلاب برپا کیا- ان دونوں کا حسین امتزاج  انکی شخصیت اور شاعری میں نمایاں ہے- بھگتوں اور صوفیوں نے انہیں ترکِ دنیا و ترکِ عقبیٰ کی شکل دیکر انقلابی صوفی سنت بنادیا تھا- باطنی مذہب یا تصّوف اور بھگتی نے عوام کا ساتھ دیا جبکہ ظاہری مذہب یا علماءظاہر نے حکمرانوں،  بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی ہمنوائ کی- طبقاتی اور سماجی نفرت اور نابرابری کے بغیر حکمراں حکومت نہیں کرسکتے تھے-
 کبیر نے انسانی برادری،  سماجی برابری،  حق و انصاف اور محبت و اتحاد کو زندگی کا نصب العین تصّور کیا- وہ عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی دونوں کے دلدادہ تھے یعنی" یادِ صنم، دیدِ صنم، نادِ صنم اور رضائے صنم" انکا مقصدِ عبادت اور پیغامِ حیات تھا- انکے یہاں اسلامی تصّوف اور ھندو بھگتی کا حسین سنگم اور وصل تھا- کبیر اپنے سماج کے ایک باغی اور انقلابی روحانی اور عرفانی رہبر تھے- انہوں نے فرسودہ رسومات کی دیواریں ڈھادیں،  انکا مخلوط تصّوف انقلابی تھا- وہ طبقاتی نظامِ حیات کے کٹّر اور بدترین دشمن  اور ھندستان کے مظلوم،  محنت کش اور استحصال زدہ طبقوں کے علمبردار تھے..... نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment