Sunday 5 March 2017

اسلام کی بنیاد کے دو ناقابل فراموش ستون

امت مسلمہ کی کتنی بڑی بے وفائی،  بے اجتنابی،  بے حسی اور بے غیرتی ہے کہ اسلام کے سب سے بڑے محسن اور بنی اسماعیل کے نزیر،  مبشر اور صالح مومن،  مخلص،  صادق اور ایمان پناہ حضرت عمران بن عبد المطلب المعروف حضرت ابو طالب کو بغض علی میں کافر قرار دیدیا اور اسلام کے سب سے بڑے دشمن بنی امیہ کے قبیح اور لعنتی منافق ابو سفیان کو مسلمان کہکر رضی اللہ عنہ کا خطاب ریدیا جس نے حضور صلعم سے نفرت،  عداوت،  حسد، بغض و دشمنی کی انتہا کردی تھی جس نے اپنی جگر خوارہ بد بخت اور بد طینت اوباش بیوی کے ساتھ فتح مکہ کے بعد ظاہراً اور منافقاً حضور کے چچا حضرت عباس کے مشورے پر جان بچانے کی خاطر اسلام قبول کرلیا یعنی ظالموں  اور مشرکوں کا سپہ سالار، ملوکیت اور بادشاہت کے بانی،  مولا علی کی خلافت الیہیہ کے باغی معاویہ  کا باپ اور فاسق،  فاجر،  عیاش،خبیث اور منافق اعظم یزید کا دادا امت مسلمہ کی نظر میں مسلمان رہا اور یتیم و یسیر کمسن اور مظلوم محمد صلعم کی پرورش،  کفالت ، نگہداشت،  پناہ دینے والے ابوطالب کو کافر گردانا جو مولود کعبہ علی کے والد اور محسن انسانیت سید الشہداء کے دادا ہیں،  مورخین کی تحقیق کے مطابق ابو طالب نے آخری سانس تک کلمہ نہیں پڑھا،  ان احمقوں کو یہ احساس نہیں کہ کلمہ کافر و مشرک و منافق پڑھتے ہیں مومن،  صالح،  مبشر،  نزیر اور حقانیت رسول کے علمبردار نہیں- قرآن میں اللہ نے اپنی نسبت ابوطالب قرار دیکر کہا کہ اے میرے حبیب آپ یتیم تھے میں نے آپکو پناہ دی،  کیا اللہ نے آسمان سے اتر کر بشری جسمانیت کے ساتھ پناہ دی،  کفالت و نگہداشت کی،  مشرکین مکہ کے شرو فتنے سے آخری سانس تک محفوظ رکھا،  محمد کی زندگی کی ضمانت کےلیے اپنے چاروں صاحبزادوں-- طالب،جعفر طیار،  عقیل اور علی کے بستروں کو بدل بدل کر محمد کو راتوں کو سلاتے رہے تاکہ محمد دشمنوں سے محفوظ رہیں اور انکا اپنا کوئی بیتا شہید ہوجائے،  محمد کی حیات کا پاسباں،  محمد کا نکاح خواں،  نکاح کے خطبے کو بسم اللہ الرحمان الرحیم سے آغاز کرنے والا اگر کافر ہے تو حسینیوں کو یہ کافر مبارک اور محمد کی شمع رسالت بجھا نے کے درپے اور بنی ہاشم کے سب سے بڑے دشمن اور منافق ابوسفیان کا مسلمان ہونا امت مسلمہ کو مبارک- احسان فراموشی مسلمان کو زیب نہیں ریتی- حق و باطل کو سلسلئے آدم و ابلیس سے ہوتے ہوئے حسین بن علی بن ابو طالب پر منتہی ہوئے جبکہ باطل سلسلہ یزید بن معاویہ بن ابو سفیان پر ختم نہیں ہوا بلکہ مشرکوں،  کافروں،  منافقوں اور گمراہوں کی صورت میں یزیدیت آج بھی حسینیت سے بر سر پیکار ہے

حضرت ابو طالب علیہ السلام آج امت مسلمہ کی نظر میں مسلمان ہوتے اگر وہ مولا علی کے والد بزرگوار نہ ہوتے-- یہ بات اس سے ثابت ہے کہ جب کربلا میں امام حسین نے لعین عمر سعد سے سوال کیا تھا کہ مجھے کس جرم میں قتل کے درپے ہو- کیا میں نے حلال محمد کو حرام اور حرام محمد کو حلال کیا ہے تو ایک ہی جواب ملا کچھ نہیں بس آپکے والد کے بغض میں یہ ساری معرکہ آرائی یزید کی طرف سے ہے- مسلمانوں کی بے بصیرتی تعجب خیز ہے کہ جسکے خطبئہ نکاح کا بسم اللہ الرحمان الرحیم اللہ کو اتنا راس کہ اسنے  اس جملے کو قرآن کی آیت بنادیا اور جنکی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت اسد نے ولادت ظاہری نو مولود کعبہ کے موقع پر اللہ کی دعوت پر غلاف کعبہ تھام کر دعا کہ اے میرے اللہ میں تجھ پر اور تیرے انبیاء،  فرشتوں اور قیامت پر ایمان رکھتی ہوں میری مشکل کو آسان فرما اور کعبے کی دیوار شگافتہ ہوکر مومنہ کی عقیدت میں متبسم ہوگئی اور اسی شکستہ دیوار سے کعبے میں داخل ہوگئیں،اگرابوطالب نعوذ باللہ کافر تھے تو سید المرسلین و فخر کائنات اور حبیبِ خدا کا نکاح کافر پڑھے وہ بھی توحید کی حمد کے ساتھ،  امت مسلمہ کو میرا ناچیز مشورہ ہے کہ اب سے اپنی اولادوں کا نکاح پنڈت روی شنکر وغیرہ سے پڈھوائیں کیونکہ سنتِ رسول اور شریعتِ اسلامیہ یہی ہے اور حضور کے بعد جتنے مسلمانوں کے،  مومنین کے نہیں،  نکاح ہوئے انکا حشر کیا ہوگا- جانے حضور کے تحفظ اور اسلام کی ترقی کےلیے اپنی ساری دولت نچھاور کرکے بھوکے مسلمانوں کی بھوک مٹائی وہ کافر کیونکہ اسنے امیتابھ بچن کی طرح بآواز بلند ظاہری اور نمائشی کلمہ بظاہر مسلم مورخوں کے سامنے نہیں پڑھا تھا یہ الگ مسلہ ہے کہ جب نماز کا حکم بھی نہیں آیا تھا علی اور جعفر حضور کی امامت میں نمز ادا کرتے تھے اور ابوطالب نگہبانی فرماتے تھے،  ابوطالب نہ صرف مومن،  محسن،  مخلص اور ولی اللہ تھے بلکہ ابو المعصومین تھے یعنی علی سے مہدی تک بارہ ائمہ طاہرین ک جد امجد 

اسلام کی پہلی تبلیغی دعوت کا انتظام حضور نے بحکم الہی حضرت ابوطالب کے گھر پر کیا اور سارے اقرباء کو دعوت اسلام کےلئے جمع کیا مگر تین روز دعوتیں اڈاکر بغیر حضور کی بات سنے سب فرار ہوگئے غالبا بعد میں جنگوں میں یہی حکمت عملی اپنائی جاتی رہی،  چوتھے روز حضرت ابوطالب تلوار لیکر دروازے پر بیتھ گئے اور حضور سے کہا بھتیجے اپنا پیغام بیان کرو اور دعوت ذوالعشیرہ میں حضور نے فرمایا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اور میں اسکا رسول ہوں،  سوائے دس سال کے علی کے کسی نے لبیک کہا اور نہ شہادت دی- تعجب ہے کہ لا الہ الا اللہ--- محمد الرسول اللہ کلمہ سارے مسلمان پڑھتے ہیں جو علی کی شہادت اور قرآنی آیات ہیں جبکہ قرآن نازل بھی نہیں ہواتھا مگر جو کلمہ اشہد انا علی ولی اللہ حضور نے پڑھا وہ سوائے شیعوں کے کوئی نہیں پڑھتا جب کوئی ایمان نہیں لایا تو حضور نے احتمام حجت کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ آج سے علی میرا وصی،  خلیفہ،  جانشیں اور وزیر ہے- سارے اقربا ابوطالب پر طنز کرتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ پہلے بھتیجے کی اطاعت کرتے تھے آج سے بیٹے کی بھی اطاعت کیجئے- ابو طالب نے آخری سانس تک حضور کی پشت پناہی کی اور علی نے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضور کی آخری سانس تک نصرت کی اور جبتک ابوطالب بحیات رہے حضور انکی پناہ میں رہے- حضور نے انکی نماز جنازہ اشکبار آنکھوں سے پڑھائی اور مکہ کے جنت المعالی قبرستا میں تدفین ہوئی-
اسلام کا دوسرا ناقابل ستون ملکہ عرب اور حضور کی زوجئہ اوّل اور واحد دختر سیدہ نساء العالمین اور سیدہ نساء الجنت حضرت فاطمہ زہرا کی والدہ گرامی ہیں- چونکہ وہ حضرت فاطمہ کی والدہ تھیں اسلئے امت مسلمہ نے حضرت خدیجہ کو وہ درجہ اور فضیلت نہیں دی جسکی وہ مستحق تھیں اور مورخین نے انکا رتبہ گھٹانے کےلیے کئی غلط بیانیاں کیں اور حقائق کی پردہ پوشی کی- یہ قطعی غلط روایت ہے کہ وہ 40 سالہ مالدار بیوہ تھیں اور تین مزید بیٹیوں-- زینب،  رقیہ اور کلثوم کی بھی ماں تھیں جبکہ وہ کنواری اور حضور کی ہم عمر 24 یا 25 سال کی تھیں کیونکہ انکے چچا دین ابراہیم کے مومن ورقہ بن نوفل نے بشارت دی تھی کہ پیغمبر اسلام سے انکا نکاح ہوگا جن سے سیدہ فاطمہ زہرا عالم وجود میں آئینگی اور نسلِ محمدی قیامت تک اولاد فاطمہ سے چلے گی اسی انتظار میں وہ کنواری رھکر حضور کی منتظر تھیں با الفرض مان لیا جائے کہ وہ 40 سالہ باشعور،  عاقل اور فاضل تجارت کی ماہر ملکئہ عرب تھیں تو شرعی مسائل جہاندیدہ اور تجربہ کار زوجہ خدیجہ سے کیوں نہ پوچھے گئے اور صحیح مسلم و بخاری میں محض چند احادیث ان سے منسوب ہیں جبکہ نابالغ زوجہ سے ہزاروں احادیث لی گئیں،  تاریخ میں درج ہے کہ حضور اکثر و بیشتر خدیجہ کی ایثار، قربانی،  خلوص،  محبت

 جانفشانی،  غمگساری اور اسلام کے فروغ کی خاطر تمام دولت کی حوالگی اور جودو سخا کو یاد کرکے آنسو بہاتے تو ایک زوجہ طنز کرتی کہ کب تک اس بوڑھیا کو یاد کرکے روتے رہینگے- یہ امت مسلمہ کی صدیقہ مادر اور حضور کی جواں سال زوجہ نے دلیل پیش کردی کہ رونا سنت نبوی ہے- اب رہی بات حضرت خدیجہ سے حضور کی چار بیٹیوں کی تو وہ تینوں خدیجہ کی بیوہ بڑی بہن کی بیٹیاں تھیں جنکی رحلت کے بعد دولت سے مالا مال خدیجہ نے اپنی بیٹیوں کی مانند زینب،  رقیہ اور کلثوم کی پرورش و پرداخت کی اور زینب کی عمر حضور اور خدیجہ کے نکاح کے وقت سن بلوغت کی تھی- خدیجہ نے حضور سے ساتھ رکھنے،پرورش جاری دکھنے کی خواہش کی اور حضور نے منہہ بولی بیٹیوں کادرجہ دیا اور تینوں کی شادیاں بھی مشرکین مکہ سے ہوئیں جبکہ انبیاء اپنی بیٹیاں کافروں سے نہیں بیاہتے البتہ کافروں کی بیٹیوں سے انبیاء کلمہ پڑھاکر نکاح کیا کرتے تھے-
حضرت خدیجہ عرب کی سب سے مالدار اور ثروت مند خاتون تھیں،  انکے خزانوں کی کنجیاں اونٹوں پر رخصتی کے وقت حضور کے مکان میں دولہن کے ساتھ لائی گئیں- دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مورخین نے حضور اور خدیجہ کے نکاح کا ذکر تفصیل سے کیا ہے کہ خدیجہ نے تجارت میں حضور کی صداقت اور دیانت سے متاثر ہوکر حضرت ابوطالب سے حضور کے پاس از خود نکاح کا پیغام بھیجا کیونکہ انہیں حضور کی عزت نفس کا احساس تھا کہ کل مورخ لکھ دیگا کہ حضور نے دولت کی لالچ میں خدیجہ جیسی مالدار خاتون سے شادی کی- ابوطالب نے نکاح پڑھایا دولہا دلہن کے سامنے خدیجہ کے خزانوں کا انبار لگا ہواتھا- دین مہر حضور کی طرف سے ابو طالب نے خدیجہ کے شایانِ شان ادا کیا جبکہ حضور کی دیگر شادیوں کے اہتمام،  نکاح،  قاضی،  مہر، ولیمہ وغیرہ کا تاریخ میں ذکر نہیں ملتا بس ازواج کا تذکرہ اور تعداد ملتی ہے،  حضور کے ولیمہ کا انتظام بھی ابوطالب نے پرشکوہ انداز میں کیاتھا-

جبتک حضرت خدیجہ بحیات رہیں حضور کی دلگیری،  دلجوئی،  غم گساری،  غم خواری،  دستگیری فرماتی رہیں اور حضور کی رسالت میں ممد و معاون اور شریک کار رسالت رہیں جسکی نظیر نہیں ملتی- ایک روز حضور گھر میں داخل ہوئے تو بہت اداس،  غمگین،  پژمردہ،  خستہ حال اور شکستہ دل تھے،  خدیجہ تڑپ گئیں اور اداسی کا سبب پوچھا- حضور نے فرمایا کہ ابو جہل،  ابو لہب اور ابو سفیان نے مسلمانوں کو دھمکی دی ہے کہ قرض واپس کرو یا دین محمدی چھوڈ کر پرانے دین پر واپس آجاؤ،  خدیجہ نے بچی کچھی دولت سے سارے مسلمانوں کا قرض چکادیا، انہوں نے بہو بنکر جس طرح ابو طالب اور فاطمہ بنت اسد کی خدمت کی اسکی مثال نہیں ملتی- حضرت خدیجہ کا درجہ ازواج میں اسلئے سب سے بلند اور عظیم تھا کہ وہ سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا کی مادر گرامی تھیں بلکہ نہ صرف ام المومنین ام المعصومین بھی تھیں جبکہ دیگر ازواج ام المسلمین تھیں یعنی مسلمانوں کی ماں تھیں جبکہ حضرت خدیجہ کو شرف ہے کہ اللہ کے منتخب انبیاء سے افضل و برتر چہاردہ معصومین میں اوّل یعنی حضور کی حد درجہ تعظیم و تکریم کرنے والی چہیتی رفیقئہ حیات تھیں اور سادات کی نسل حضرت فاطمہ سے چلنے کی وجہ سے حسن سے مہدی تک گیارہ معصوم کی ماں اور معصوم مولا علی کی بےنظیر ساس تھیں- جس طرح حضرت ابو طالب ابو المعصومین تھے اسی طرح ھی حضرت خدیجتہ الکبری ام المعصومین تھیں- کائنات میں قیامت تک یہ رتبے اور درجے کسی کو نصیب نہیں ہونگے مگر امت مسلمہ نے دونوں عظیم اسلام کی روح رواں اور محسنین کی عظمتوں پر نہ صرف پردہ ڈالا بلکہ حضرت ابو طالب کو کافر اور حضرت خدیجہ کو مُعمر بیوہ قرار دیکر درجہ اور وقار گھٹانے اور نابالغ زوجہ کا درجہ بڑھانے کی متعلقین اور زرخرید اور متعصب مورخین نے سازش کی تھی اور امت مسلمہ کی کم فہمی،  لاعلمی،  بے بصیرتی اور بے شعوری کی وجہ سے اسلام کے دونوں معماروں کو فراموش کردیا گیا،  دونوں کے روضئہ مطہر جنت المعالی میں تھے مگر لعین آل سعود نے جنت البقیع کی طرح جنت المعالی کے قبرستان کو بلڈوزر چلواکر حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ الکبریٰ کی قبور مطہرہ کو منہدم کردیا جہاں ہرسال حضور صحابہ سمیت فاتحہ پڑھتے تھے اسطرح برسی منانا حضور کی سنت ہے----- نظام الحسینی

No comments:

Post a Comment