Tuesday 14 March 2017

The name Islam

The name Islam is derived from the word peace & stands for peace, tranquillity, construction& stability. This is d religion that determined d topmost moral values & ethics for humanity but today this religion& it's followers are victims of anti- Muslim& anti- Islam propaganda. As Muslims it is our primary duty to work tirelessly to eradicate this negative& harmful propaganda against Islam& set high examples of morality& high values. Global terrorism is a reality co- inspired by the international devil, it's illegal partner Israel& Saudi Arabia, Alqaeda, Daesh (I.S)& scores of Munafiq & so called Muslims. Terrorism, extremism, sectarianism& munafiqism must be fought tirelessly to save the face of real Islam founded by Holy Prophet Hazrat Mohammed(S.A.W) progressed& developed by Ahle Bait+ Sale Mohammad& saved by Imam Hussain by sacrificing his family& companions in Karbal& finally  d followers of Ahle Bait& real& faithful Ashaab...I.e. Ausiaa, Auliaa & Sufiaa karaam are preaching& highlighting d real& purified Islam irrespective of sects fabricated& created by opportunist religious leaders forgetting that all Muslims are Mohammad I& all Muslims must follow Dr path of Ahle Bait, Aale Mohammsd, true& trustful Ashaab, Aulia, Sufia& spiritual persons who unite all human- being for dsake of humanity, universality, Rabbul Aalmeen& Rahmat ullil Aalmeen ignoring divisions on sectarian ground.....Plz try to be a true& faithful Mohammad I ignoring sectarian division& hatrad....Aameen....
Nizamul Hussaini

اسلام دینِ سلامتی، محبت اور اتحاد

اسلام دینِ سلامتی،  محبت اور اتحاد ہے- اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ہے اور ہر زمانے میں حضرت آدم کی خلقت سے دین اسلام قایم و دائم ہے،  ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین کا تعلق ہر دور اور ہر خطے میں اسلام سے ہی رہا ہے- لفظ اسلام کی بنیاد پانچ حروف پر مشتمل ہے اور اسکے بانی اور سید الاسلام حضرت محمد مصطفٰی،  مرتضیٰ،  مجتبٰی صلہ اللہ علیہ آلہ وسلم کا اسم معظم بھی پانچ حروب کا مرکب ہے- توحید، رسالت، امامت اور قیامت کے علاوہ پنجتن بھی پانچ حروف کا شاہکار ہیں- مقام غور و فکر ہے کہ جس دین کا انحصار پنجتن پاک پر ہے وہ دین کیونکر اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہوگا،  اللہ پاک نے انسان کی خلقت پانچ عناصر باد،  آب،  آتش،  خاک اور روح سے کی ہے،  شریعت کے پنجتن محمد، علی،  فاطمہ،  حسن اور حسین ہیں،  معرفت کے پنجتن ممکن الوجود،  واجب الوجود،  ممتنع الوجود،  عارف الوجود اور وحدت الوجود ہیں- وجودی مقامات  بھی پانچ ہیں ناسوت،  ملکوت،  جبروت،  لاھوت اور ھاھوت ہیں- منازل وجودی بھی پانچ ہیں عرش معلیٰ،  سدرتہ المنتہاء،آبادنا،  نصیرا اور مضمودہ ہیں- وجودی دربان بھی پانچ ہیں جبریل،  عزرایل،  اسرافیل،  میکایل اور عزازیل- نفس وجودی بھی پانچ ہیں امارہ،  لوامہ،  ملحمہ،  مطمئنہ اور رحمانیہ- روح وجودی بھی پانچ ہیں جماداتی،  نبا تاتی،  حیوانی،  انسانی اور رحمانی،  دینی وجود بھی پانچ ہیں شریعت،  طریقت،  حقیقت،  معرفت اور وحدانیت- یقین وجودی بھی پانچ ہیں علم الیقین،  عین الیقین،  حق الیقین،  غیب الیقین اور ھوا لیقین- نماز بھی پانچ اوقات فجر،  ظہر،  عصر،  مغرب اور عشاء- انگلیاں بھی پانچ ہیں وغیرہ- اسلام کا مقصد خالق کی عبادت و معرفت،  رسول اور اللہ کے منتخب اور نامزد کردہ اولاامر و ھادیوں کی اطاعت اور خدمت خلق- اسلام ایک مربوط،  متحد،  مبسوط،  مرصع و مسجع قوانین کا مجموعہ ہے جو تین مرحلوں سے گزر تک ہم تک پہونچا ہے- قانون مرتب اور خلق کرنے والا اللہ ہے پھر قانون کو ہم تک پہونچانے والا رسول دوسرا مرحلہ اور تیسرے مرحلے میں قانون کی تشریح ، تفسیر اور تحفظ کرنے والا امام الہی ہے- اس مقام پر لفظ محمد پوری نبوت و رسالت اور لفظ علی پوری امامت کی نمائندگی ترجمانی اور عکاسی کررہا ہے

 دین اسلام کا اختلاف اور تنازعہ چار قسم کے افراد اور طبقات سے آغاز ظاہری نبوت محمدی سے تھا کفار قریش،  یہودی،  عیسائی اور منافقین- ایک ھجری سے گیارہ ھجری تک علی نے امامت کی صورت میں محمد کی رسالت کا نہ صرف تحفظ کیا اور چالیس ھجری تک رسول کے بعد اسلام کی بقا کے لیے متعدد جنگوں میں دشمنان اور مخالفین سے معرکہ آرائی کی- دین اسلام پر جب بھی برا وقت پڑا،  امامت نے بڈھکر مورچہ سنبھالا،  اور امام حسین نے یزید کے خلاف اللہ کے دین کے تحفظ کی خاطر اپنے اعزاء،  اقارب او احباب و اصحاب کی عظیم الشان قربانی دیکر قیامت تک امامت کو محفوظ،  منظم اور مربوط کردیا- سلسلہ امامت کا بارھواں اور آخری وارث مہدی معظم صفاتی آخری محمد ابھی پردہ غیب میں ہیں تو دہشت گردوں،  مشرکوں،  کافروں،  منافقوں اور دشمنوں کے غلبے اور اسلام کو مٹانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا یہ ضرور ہے کہ منافقوں کی نازیبا حرکتوں اور یزیدی اسلام کی تشہیر کی وجہ سے دنیا میں اسلام بدنام ہورہا ہے اور امن و محبت،  اخوت و اتحاد پسند انسان اسلام کے نام نہاد داعیان کو نفرت،  حیرت اور تعجب سے دیکھ رہے ہیں اور آج کے سفاکانہ،  قاتلانہ،  بےرحمانہ اور بہمیانہ دور میں حسینیت کی امن،  اتحاد اور اخوت کی تشہیر اور عروج کو امید کی آخری کرن محسوس کررہے ہیں- حضرت امام حسین علیہ السلام کا تاریخ انسانیت کا سب سے دردناک،  المناک اور کربناک واقعہ خون آلود حروف میں رقم کیا گیا ہے اور اشکبار آنکھوں سے پڑھا جارہا ہے لیکن اس درد انگیز واقعہ اور ماتم خیز حادثہ کے اندر شریعت اسلامیہ میں بے شمار بصیرتیں مضمر تھیں- لازم ہے کہ محسن انسانیت اور فخر اسلام کے دین اور دین پناہ حسین کے واقعہ شہادت کے اندر عزم و استقلال،  صبر و ثبات،  استبداد شکنی،احیائے دین،  قیام انسانیت،  امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جو عظیم المرتبت بصیرتیں موجود ہیں انکی یاد کو ہر وقت ترو تازہ اور شگفتہ رکھیں اور کم از کم سال میں ایک ہی بار سہی اس عظیم ایثار و قربانی کی روح اور مقصد کو ساری انسانیت میں جاری و ساری رکھیں اور امام کے جلد ظہور کے منتظر رہیں
 نظام الحسینی

The "Hoo" sound is religious & cosmic both


Every change affects d energy equilibrium- till disturbances settle down. The universe is made up of various energy fields& d quantum of Hoo is d base for all energy equilibrium. While scientists debate d first sound energy ever to occur in d universe, saints of religions had documented it extensively in d holy books especially in Quran. Modern physicists believe Hoo is d sound of cosmic creation that occurs throughout d universe.
Sound can travel through any medium, collide with molecules & push them closer together. It enters our brain through stimulus of external vibration, created by chanting of Hoo- it can stimulate hayat, the life source that keeps everything moving. Hoo- is d sound that is identified, defined& interpreted as the constant fluctuation of ether present throughout d universe, our physical wave existence. Hoo- is indeed" soute Sarmsdi" or zerobum( voice of Sarmad). Through this sacred sound Hoo- whole universe was created by Allah....kun fayakun is actually Hoo- this Hoo- connects with Dr ultimate without possessions, relationships& d physical+ spiritual worlds. It offers various shades of meaning of d universal mysteries, infinite language, infinite knowledge, essance of breathing, life even everything that exists. In Sufism, Able Moarfat recommend" Hoo-" as a tool for meditation to get d blessings& deedar of Allah' s Zaat& Sifaat.Hoo- azkaar cleanses & heals d whole system or wajood, it will attune us to do sound of d cosmos just like a droplet dissolves into d ocean& will open d ocean of love within.Past, present& future all is Hoo- Hoo- defines 4 states of Rooh- d physical, inner thought, spiritual consciousness& self identity- d eternal.....Baqa Billah after Fana Fillah. Hoo- is four states of consciousness-- wakefulness, dream state, deep sleep& self state. Hoo- azkaar sequentially activates d stomach, spinal cord, throat, nasal & brain regions sensitizing whole wajood thereby channelising energy& activating d spinal cord& brain& heart.Its continuity will shift d attention& echo d harmonic relationship of every vital organs, our heartbeat, breathing, brain wave pulsing, neuron cells etc.lastly.....Hoo- is everything...
Nizamul Hussaini

Sunday 5 March 2017

اھلِ بیت کی افضلیت و تسلیمی

سیّد الشریعت،  امام المعرفت،  شہنشاہ الاولیاء،  تاجدار الصوفیاء، سلطان العرفاء اور رازدارِ وحدت مولا علی بن ابیطالب علیہ السلام نے اھل بیت کی افضلیت،  اہمیت،  افادیت اور ضرورت کی بابت ارشادات فرمائے ہیں یقیناً قابل غور و فکر و عمل ہیں اور ثابت ہوتا ہے اھل بیت کی خلقت مقدّسہ اللہ تعالٰی کے نور قدیم سے ہوئ ہے-
 فرمودات ملاحظہ فرمائیں:--
* اپنے نبی صلٰی اللہ علیہ و الہ وسلم کے اھل بیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں کی سمت کے پابند ہوجاؤ،  انکے آثار کا اتباع کرو کیونکہ یہ لوگ کبھی تمہیں ہدایت کی راہ سے دور نہیں کرینگے اور نہ ہی کبھی ضلالت و گمراہی کی طرف لوٹائیں گے- اگر کبھی یہ خاموش رہیں تو تم بھی چپکے بیٹھو اور اگر یہ اٹھ کھڑے ہوں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو،  کبھی ان سے آگے نہ بڑھو ودنہ گمراہ ہوجاؤگے اور نہ ان سےگ پیچھے رہ جاؤ ورنہ ہلاک ہوجاؤگے
*  ان کی شان میں قرآن کی آیات کریمہ ہیں،  یہ لوگ. رحمان کے خزانے ہیں اگر بولتے ہیں تو سچ اور اگر یہ خاموش رہتے ہیں تو کوئ ان سے آگے بڑھنے کا حق نہیں رکھتا
* ہم اھل بیت خدا کی نشانیاں،  رسول اللہ کے سچّے ساتھی،  انکے علوم کے خزانہ دار اور علم لدّنی کے دروازے ہیں اور گھر میں صرف اب وازے کے ذریعے آمدورفت ہوتی ہے لہذٰا جو بھی دروازہ چھوڑ کر کہیں اور سے داخل ہوگا وہ چور کہا جائیگا
* آلِ محمد. کی اس امّت میں کوئ برابری یا ہماری نہیں کرسکتا اور انکے ٹکڑوں پر پلنے والے کبھی انکے برابر نہیں ہوسکتے- یہ دین کی اساس اور یقین کے ستون ہیں،  غلو کرنے والا انہیں کی طرف پلٹے گا اور پیچھے رہ جانے والا بھی آخرکار انہیں سے ملحق ہوگا،  حقِ ولایت و حکومت کی خصوصیات،  رسول صلعم کی جانشینی اور وراثت سب کچھ ان ہی کا ہے،  اب جاکر حق صاحبِ حق کی طرف پلٹا ہے اور اپنی حقیقی جگہ منتقل ہوا ہے
* اھل بیت ہی اللہ کے اسرار کے امین و رازدار،  اسکے دستورات کےلئے جائے پناہ اور اسکے علم کے ظروف ہیں،  اسکی کتابوں کی پناہگاہ اور اسکے دین کے کوہ ہائے استوار ہیں،  انہیں کے ذریعے اس دین کی کمر کا خم درست ہوا اور اسکے احکام و فرائض کی لرزہ بر اندامی ختم ہوئ. * سب سے بڑا عقل کا اندھا وہ ہے جو ہماری محبت و فضل سے اندھا ہو اور ہمارے کسی بھی گناہ کے بغیر ہم سے دشمنی روا رکھے جز اسکے کہ ہم نے اسے حق کی طرف بلایا اگر یہ کوئ گناہ ہے جبکہ دوسرے نے اسے فتنہ و دنیاداری کی طرف بلایا،  اس نے اسے قبول کرلیا اور ہم سے دائمی کرلی
* خوش نصیب ترین شخص وہ ہے جو ہماری فضیلتوں کو سمجھ لے اور اللہ کا تقّرب ہمارے. ذریعے حاصل کرے اور ہم سے خالص محبت رکھے،  ہم نے جو کچھ کہا اس پر عمل پیرا ہو اور ہم نے جس سے منع کیا اسے ترک کرے پس وہ ہم میں سے ہے اور وہ دار جاودانی میں ہمارے ساتھ ہوگا
* سب سے اچھی نیکی ہماری محبت ہے اور سب سے بڑی بدی ہم سے نغض ہے
* ہمارے نزدیک اوّلیت اسی کو حاصل ہے جس نے ہم سے محبت اور دوستی کی اور ہماری دشمنی رکھنے والے سے عداوت روا رکھی
* ہم اھل بیت نبّوت کا شجرہ،  رسالت کی منزل،  ملائکہ کی فرودگاہ،  علم کا معدن اور حکمت کا سرچشمہ ہیں- ہماری نصرت کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا رحمت کےلئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہرِ الٰہی کا منتظر رہنا چاہئیے
* حضور صلعم نے اھل بیت کی شان میں ہزاروں احادیث بیان فرمائی ہیں،  قرآن پاک کی سیکڑوں آیات تفسیر کی ہیں جنہیں زرخریدوں،  مفاد پرستوں،  حاسدوں اور دشمنوں نے ہر دور میں چھپانے،  پردہ ڈالنے اور مسخ کرنے کی کوشش اور سازش کی ہے،  غرضکہ اھل بیت تاریکیوں کے چراغ،  امّت کےلئے سامانِ حفاظت،  دین کے روشن مینار اور فضل و کمال کا بلند معیار ہیں
* حضور کی شہرہ آفاق حدیث ہے جو علامتی طور پر امتِ محمدی کے دو ہی فرقوں حق و باطل کی غمّاز ہے یعنی میرے اھل بیت کی مثال کشتیءنوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا حتٰی کہ حوضِ کوثر پر مجھ سے ملاقات ہوگی اور جو کشتی سے فرار یا دور ہوا وہ غرقاب ہوکر گمراہ اور جہنّم کا مستحق ہے
* میں تم میں دو برابر وزن کی گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں قرآن کتاب اللہ اور اھل بیت عترت معلّمان و وارثانِ قرآن- ان دونوں کو ساتھ رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور دونوں میں کسی ایک کو چھوڑدوگے تو گمراہ ہوجاؤگے
* بحکم اللہ اجرِ رسالت ادا کرو جو میرے اقرباء اھل بیت عترت کی مودت و محّبت ہے
* میری امّت میں 73 فرقے ہونگے جن میں 72 جہنمی ہونگے اور ایک ہی فرقہ ناجی ہوگا -- حضور کی احادیث اور قرآن کی آیات کی روشنی میں ہر مسلمان کو اپنا دل ٹٹول کر خود فیصلہ اپنی بصیرت سے کرلینا چاہئیے کہ اللہ و رسول نے اھل بیت کو سفینہءنجات،  مصباحِ دین،  امّت کا مسیحا اور نجات دہندہ قرار دیا ہے تو فرقہء ناجیہ اھلِ بیت سے تمسّک رکھنے والا ہے خواہ سیاسی و دنیاوی طور پر کسی بھی فرقہ،  فقہ و مسلک سے تعلق رکھتا ہے مگر فرقہءحق و نجات کا تعلق صرف فقہءمحمدی سے ہے جو محمد  صلعم سے شروع ہوکر امام مہدی علیہ السلا پر تمام ہے جہاں محمد و آلِ محمد کی سنّت،  سیرت،  کردار اور فقہ واحد و منفرد ہے
نظام الحسینی

معرفت بزبانی مولا علی

* میں نے اللہ کو ارادوں کے ختم ہوجانے،  عہد و پیمان کے ٹوٹ جانے اور ہمّتیں ہار جانے کے ذریعے پہچانا
* اوّل دین اسکی معرفت ہے اور کمامِ معرفت اسکی تصدیق ہے
* تمام کاموں میں سرفہرست اللہ کی معرفت ہے اور اسکا ستون اطاعتِ خدا ہے
* جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا بلاشبہ اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا
* جو اپنے نفس کی معرفت سے عاجز رہا تو وہ اپنے پروردگار کی معرفت سے اس سے زیادہ عاجز ہوگا
* کوئ ایسی حرکت نہیں جس کے لئے تم معرفت کے محتاج نہ ہو
* عارف کا چہرہ ہشاش بشاش اور مسکراتا ہوا ہوتا ہے جبکہ اس کا دل خائف اور محزون ہوتا ہے
* عارف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو پہچان کر اسے خواہشوں کی غلامی سے آزاد کردیا اور اسے ہر شئے سے دور کردیا جو اسے اللہ سے دور کرتی ہو اور اسکی تباہی کا باعث ہو
* معرفت دل کا نور ہے
* علم کا ثمرہ اللہ کی معرفت ہے
* بہت سی معرفتیں گمراہیوں کی طرف لے جاتی ہیں
* معرفت کی انتہا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے
* ہر عارف یعنی خداشناس غمزدہ ہوتا ہے
* اھلِ معرفت سے ملاقات دلوں کی تعمیر اور قابلِ استفادہ حکمت ہے
* جو برائ میں سے اچھائ نہ پہچاان لے وہ چوپایا ہے
* جو اللہ کی معرفت کے سلسلے میں ذاتی رائے اور قیاس آرائیوں پر بھروسہ کرتا ہے وہ گمراہ ہوجاتا ہے اور تمام امور اس کے لئ سخت ہوجاتے ہیں
* جسکی معرفت صحیح ہوجاتی ہے اسکی ہمّت و طبیعت فانی دنیا سے ہٹ جاتی ہے
* تھوڑی سی معرفت بھی دنیا میں زہد کا باعث بنتی ہے
* کسی چیز میں اس وقت تک ہرگز دلچسپی نہ لینا جب تک تم اسے پہچان نہ لو
* اعلٰی ترین معرفت یہ ہے کہ آدمی خود کو پہچان لے اور اپنی قدرومنزلت سے واقف ہوجائے
باطن
* جو اپنا باطن درست کرلیتا ہے اللہ اسکا ظاہر اچھا کردیتا ہے
* خوش بختی ہے اس شخص کےلئے جو اپنے آپ کو کمتر سمجھے،  جس کا ذریعہءمعاش پاکیزہ،  باطن صاف اور اخلاق اچھا ہو
* اللہ اپنے بندوں میں جسے چاہے گا نیک نیتی اور پاک باطنی کی بنا پر داخلِ جنّت کردیگا
* اس دن کےلئے عمل کرو جس دن کےلئے تمام چیزوں کا ذخیرہ کیا جاتا ہے اور جس دن تمام راز آشکار ہوجائیں گے
* تم سب اللہ کے دین کے اعتبار سے بھائ بھائ ہو،  تم میں صرف بدباطنی اور بری نیّتیں ہی اختلاف پیدا کرتی ہیں
* جس کا باطن اچھا ہوتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا
* پاک باطنی،  درست بصیرت ہونے کی دلیل ہے
* وزراء کی آفت بدباطنی ہے
* مرتب.... نظام الحسینی

نظر انداز۔۔۔روشن۔۔۔

کاش ہر مسلمان فرقہ،  مسلک اور گروہ سے بالاتر ہوکر غیر آلِ محمد کے فقہی،  فروعی اور اختلافی مسائل کو نظر انسا کرکے صرف فقہءمحمدیہ پر عمل پیرا ہو جو امام مہدی تک جاری و ساری رہے گی جس میں کوئ اختلاف نہیِں اسی کی بنیاد پر سارے مسلمان محمدی- علوی- حسینی یا مجموعی طور پر صرف پنجتنی ہیِں اسیلئے تمام اولیاء اللہ کانعرہ اور فتوٰی ہے کہ جنّت میں وہی جائیگا جو پنجتنی ہے اور یہ حقیقت روزِ راشن کی طرح عیاں ہے کہ حضور کی وصّیت اور بشارت کے تحت اھلِ بیت کی کشتی پر سوار مومنین و مومنات اور قرآن کتاب اور وارثان و معلّمانِ قرآن اھلِ بیت عترت دونوں پر ایمان رکھنے والے اور اجرِ رسالت ادا کرنے والےمحسنین و مخلصین ہی اھلِ جنّہ ہیں اور آغاز محمد صلعم ہیں اختتام حسین علیہ السلام ہیں اور جج امام مہدی علیہ السلام ہونگے لہذٰا اب بھی وقت ہے سبھی تمام فرقوں اور مسلکوں کو سیاسی اور دنیاوی جان کر آخرت میں کام آنے والی فقہءمحمدیہ،  سنّت و سیرتِ محمد و آلِ محمد کو مشعلِ راہ اور منزلِ مقصود بناکر مذہب حق کو تسلیم کرلیں نجات محمدیت اور حسینیت میں ہے فرقہ واریت اور فتنہ انگیزی میں نہیں۔۔۔۔خدارا امن،  محبت اور اتحاد کو اللہ تعالٰی کا اشارہ اور بشارت جان کر عداوت،  نفرت،  کدورت اور اوصافِ رذیلہ ترک کرکے صفاتِ حمیدہ اپناکر مومن،  متّقی اور محسن کہلائیں اور دشمنان اسلام اور منافقین کو دندان شکن جواب دیں۔۔۔نظام الحسینی

رسول کونین کی آخری حج اور غدیر خم

اسلام کی تاریخ میں رسول کونین کی آخری حج اور غدیر خم کا خطبہ اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ کربلا۔ وہ یوں کہ اگر لوگوں نے غدیر کو نہ بھلایا ہوتا تو کربلا رو نما  نہ ہوتی۔



آج کی شب چارسو گونجی صداۓ یا علی                             دے رہا ہے ہر گل ہستی نواۓ یا  علی

طائر  باغ مودت گنگناۓ یا علی                                          رند میخانہ  کے لب پر کیوں نہ آۓ یا  علی

محفل توحید میں امشب اجالا ہو گیا                                     آج کی شب دین حق کا بول بالا ہوگیا

جز خدا و جز نبی سب خلق سےاولی علی                        کیوں نہ میں کہہ دوں غدیری سب کا مولا ہے علی

کیا جو خالق ہستی  نے اہتمام غدیر                                   سنایا احمد مختار نے  پیام غدیر

 پڑھا تھا جس کو  نبی نے بحکم  رب جلیل                       سناؤ تم بھی غدیری وہی کلام غدیر



غدیر منزل انعام جا ودانی ہے                                      غدیر مذ ہب اسلام کی جوانی ہے
غدیر دامن صدق و صفا کی دولت ہے                               غدیر کعبہ و قر آن کی ضما نت ہے
                غدیر سر حد معراج آدمیت ہے                           غدیر دین کی سب سے بڑی ضرورت ہے


غدیر منزل مقصود ہےرسولوں کی
غدیر فتح ہےاسلام کے اصولوں کی

متاع کون و مکاں کو غدیر کہتے ہیں                                   چراغ خا نہٴ جاں کو غدیر کہتے ہیں 
     صدا قتوں کی زباں کو غدیر کہتے ہیں                         عمل کی روح رواں کو غدیر کہتے ہیں 


غدیر منزل تکمیل ہےسفر نہ کہو
نبی کی صبح تمنا ہےدو پھر نہ کہو

کوہ فاراں سے چلا وہ کا روان انقلاب                            آگے آگے مصطفےٰ ہیں پیچھےپیچھے بو تراب 
فکر کے ظلمت کدے میں نور بر ساتا ہوا                             ذہن کی بنجر زمیں پر پھول بر ساتا ہوا 


قافلہ تھا اپنی منزل کی طرف یوں گا مزن
جیسے دریا کی روانی جیسے سورج کی کرن


خُلق پیغمبر بھی تیغ فا تح خیبر بھی ہے                                                  یعنی مر ہم بھی پئے انسانیت نشتر بھی ہے
ذہن کی دیوار ٹو ٹی باب خیبر کی طرح                                                  دل میں در وازے کھلے اللہ کے گھر کی طرح 


مو ج نفرت میں محبت کے کنول کھلنے لگے

خون کے پیا سے بھی آپس میں گلے ملنے لگے



بزم ہستی میں جلا ل کبریا ئی ہےغدیر                            بھر امت امر حق کی رو نما ئی ہےغدیر 
اے مسلماں دیکھ یہ دو لت کہیں گم ہو نہ جا ئے               مصطفےٰ کی زندگی بھر کی کما ئی ہےغدیر

AYYAM E FATEMI (sa)

Riwayat:
H. Ali (as) farmate hain, "Ek nabina (blind) shakhs J. Fatima (sa) ke darwaze par aaya aur andar aane ki ijazat chaahi. Bibi Fatima (sa) parde ke pichhe chali gayi'n. Rasule Khuda (saww) ne beti se farmaya, 'Tumne kyun parda kar liye jab ke wo nabina hai, tumhe nahi dekh sakta?' Bibi Zahra (sa) ne farmaya, 'Agar wo mujhe nahi dekh sakta, to main to usay dekh sakti hoo'n aur mumkin hai ke wo mere jism ki buu (fragrance) soongh le'. Rasulallah (saww) J. Fatima Zahra (sa) ki ye baat sun-kar intehaayi khush huwe aur farmaya, 'Gawaahi deta hoo'n ke tum mera ek tukda ho'."
(Haraam Nigaah, p51)
(Bihaar ul Anwaar, v3, p116)


Riwayat:

Rasule Khuda (saww) ki ek biwi Umme Salmah farmaati hain ke, "Main ek din Maimoona (jo Rasule Khuda (saww) ki biwiyo'n mein se hain) ke saath Paighambar (saww) ki khidmat mein thi. Itne mein ek nabina (blind) Sahaabi Ibne Maktoom tashreef laaye. Rasule Khuda (saww) ne farmaya, 'Ihtejab. Tum dono parda kar lo'. Humne kaha, 'Kya wo nabina nahi hai?' Rasule Khuda (saww) ne farmaya, 'Kya tum dono bhi nabina ho? Kya tum dono unhe nahi dekh sakti ho?' Jabhi Surah Nur ki 31 Ayat mein hai ke 'Aye Rasul (saww)! Momena aurato'n se bhi keh dijiye ke wo bhi apni nigaaho'n ko neeche rakhein'."
(Haraam Nigaah, p26)

خدا شناسی اور قربِ الٰہی

شریعت ظاہری اور مجازی ہے جبکہ طریقت نورانی،  باطنی،  روحانی اور عرفانی ہے- لا الہ الّا للہ نفی اور اثبات ہے جسکے ظاہری معنی پہلے تمام خداؤں کا انکار اور پھر وحدہ لا شریک کا اقرار ہے- واضح رہے کہ کلمہءشہادت،  نما،  روزہ وغیرہ کی صورت بھی اور حقیقت بھی انکے حقائق کو چھوڑ کر صرف ظاہر. صورتوں پر قناعت کرلینا فضول ہے- وہ شخص بڑا احمق ہے جو انکے حقائق تک نہیں پہنچتا- اللہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہیگا- سالک ابتدا میں نابینا ہوتا ہے جب حق تعالٰی کی طرف سے اسے بینائ مل جاتی ہے تو پھر اس سے دیکھتا اور سنتا ہے اور اپنے آپ کو فراموش کردیتا ہے اور جب ایسی صورت ہوجائے تو واصل ہمیشہ کےلئے زندہ اور بقاباللہ ہوجاتا ہے-" عارف معارف حق آگاہ،  عاشق اللہ"- فقیرِ کامل اسے کہتے ہیں جو تمام ضروریات سے فارغ ہو اور اسکے باقی رہنے والے جمال کے سوا اور کسی چیز کا طالب نہ ہو کیونکہ تمام موجودات اسکے باقی رہنے والے کا آئینہ اور مظہر ہیں اس واسطے وہ ان سب میں اپنا مقصود دیکھتا ہے- لہذٰا کامل فقیر وہ ہے جسکے دل سے سوائے اللہ تعالٰی کے اور کوئ مقصود و مطلوب نہ ہو جب ماسوا اللہ دل سے دور ہوجاتاہے مقصد حاصل ہوجاتا ہے پس طالب کو ہمیشہ مطلوب و مقصود کے درپے رہنا چاہئے معلوم ہونا چاہئے کہ مقصود یہی درد و سوز ہےخواہ حقیقی ہو یا مجازی،  یہاں سوزِ مجازی سے مراد ابتدائے احکامِ شریعت اور سوزِ حقیقی سے مراد معرفت ہے- 
من عرف اللہ لا یقولُ اللہ و من یقولُ ما عرف اللہ یعنی جسے معرفتِ حق تعالٰی حاصل ہوجاتی ہے وہ اللہ اللہ نہیں کہتا پھرتا جو کہتا پھرتا ہے اسے معرفت میّسر نہیں بمصداق من عرفہ ربّہہ فقد عرفہ ربّہہ یعنی جس نے اپنے/ ذات/ ہستی/ وجود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا بمصداق من عرفہ ربہہ فقد کُل لسانہی و قطع امر یعنی جس کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگئ وہ گونگا اور لنگڑا ہوگیا- عارفِ کامل کی حالت مقامِ یاد سے بھی گزر جاتی ہے کیونکہ یاد بھی ایک قسم کی دوئ ہے اور دوئ عارفوں کے نزدیک نقص ہے- ارشاد خداوندی ہے وَ ھُوَ معکم اینما کُنتم یعنی تم جہاں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے- عارف صحیح معنوں میں شہنشاہ ہوجاتا ہے اسے بجز ذات ایزدی نہ کسی سے امید ہوتی ہے اور نہ کسی سے ڈر- ایسے لوگوں کے حق میں باری تعالٰی کا ارشاد ہے الا انّ اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون یعنی اولیاء اللہ کو نہ کسی کا خوف ہوتا ہے نہ کسی کا ڈر- اللہ بندے کے دل میں ہے اور دل قالبِ انساں میں،  مگر دل دو قسم کا ہے ایک دلِ مجازی دوسرا دلِ حقیقی- حقیقی دل وہ ہے جو نہ داہنے جانب ہے نہ بائیں جانب نہ اوپر کی طرف نہ نیچے کی طرف نہ دور نہ نزدیک مگر اس حقیقی دل کی شناخت آسان نہیں صرف مقّربانِ خدا اسکی معرفت رکھتے ہیں مومنِ کامل کا دل درحقیقت عرشِ خدا ہوتا ہے- قرب و حضوری بغیر صحبتِ مرشدِ کامل حاصل نہیں ہوسکتی،  معرفت کے اسرار و رموز کا گنجینہ وہی ہوتا ہے کامل اور طالبانِ صادق سوال و جواب و مناظرہ و بحث نہیں کیا کرتے بلکہ خاموش اور با ادب رہتے ہیں-
 قربِِ الٰہی اور خدا شناسی ایک دقیق مسئلہ ہے اور اسکی طلب اور حصول کے باب میں ابتک لاتعداد عرفاء،  اولیاء و صوفیاء نے طبع آزمائی کی ہے اور اس دشوار گزار منزل تک پہنچنے میں رہنمائ کی ہےطالبانِ حق کو" اللہُ الصمد" اور " لَم یَلِد الم یُولَد" کے اسرار و انوار کا ماہر ہونا چاہئے- سوائے اھلِ معرفت کے کسی اور کو عشق کے اسرار و رموزات سے واقف نہیں کرانا چاہئے- اہلِ معرفت کی معرفت کیسے حاصل ہو؟ اھلِ معرفت کی شناخت و علامت ترک ہے- جس میں ترک ہے یقیناً وہ اھلِ معرفت ہے اور اسے قربِ الٰہی اور خدا شناسی حاصل ہے اور جس میں ترک نہیں اس میں معرفتِ حق کی بُو بھی نہیں- کلمہءشہادت اور نفی و اثبات حق تعالٰی کی معرفت ہے،  مال،  جاہ و سطوت،  مرتبہ و منصب،  دولت و ثروت،  حرص و طمع،  شہرت و نمئش بڑے بھاری بت اور دیگر خدا ہیں- اس نفس پرستی،  ہوس پرستی،  دنیا پرستی،  خود پرستی اور جاہ پرستی نے خدا پرستی سے ہمیشہ دور کیا ہے،  اچھے اچھّوں کو گمراہ کیا ہے اور صراطِ مستقیم سے دور کیا ہے،  راہِ حق سے بھٹکایا ہے، اللہ و رسول و آلِ رسول کی تعلیمات،  احکامات،  فرمودات،  ارشادات اور تلقینات سے انحراف کرایا ہے،  اھلِ بیت کے سفینے سے دور کرایا ہے،  قرآن بظاہر کیکر معّلمان اور وارثانِ قرآن اھلِ بیت عترت کا دامن چھڑوایا ہے، بحکمِ الٰہی اجرِ رسالت نہیں ادا کررہے ہیں- اھلِ بیت پر صحابہ کو مقّدم کررہے ہیں،  محمد و آلِ محمد کی اہمیت،  افادیت،  افضلیت اور معرفت سے انکار کرتے آئے آئے ہیں،  محمدیت اور حسینیت کو فراموش و نظر انداز کرکے فقہءمحمدیہ کو ترک کرکے مختلف فقہوں،  فرقوں اور مسلکوں میں منقسم ہوکر راہِ نجات کے متلاشی ہیں- یہی لوگ معبودوں کی پرستش کررہے ہیں،  یہی لوگ معبودِ خلائق بن رہے ہیں، یہی لوگ جاہ و مال و منصب کی پوجا کررہے ہیں،  پس جس نے مال و جاہ اور دنیا کی محبت دل سے نکال دی اسنے گویا پوری کی پوری نفی کردی اور جسے حق تعالٰی کی معرفت حاصل ہوگئ اس نے پورا کا پورا اثبات کرلیا جس نے کلمہء طیّب و کلمہءشہادت باطنی نہیں پڑھا اسے قربِ الٰی اور خداشناسی حاصل نہیں- نفی اپنے آپ کو نہ دیکھنا اور اثبات اللہ کے سوا کسی کو نہ دیکھنا ہے،  بس نفی کی کرنا چاہئے ورنہ نفی کا کوئ فائدہ نہیں،  صرف یہ ملحوظ رہے کہ ہستی صرف اللہ پاک کی ہستی ہے تو مطلب حاصل ہوجاتا ہے اور عارف فنا فی اللہ ہوجاتا ہے کیونکہ کوئ بھی خود بیں خدا بین نہیں ہوسکتا.... 
* نظام الحسینی

امّتِ محمّدیہ کے بس دو فرقے ہیں

حقیقی معنوں میں امّتِ محمدیہ یا امّتِ مسلمہ میں دو ہی فرقے ہیں شرعی اسلام میں ایک فرقہ وہ ہے جو حضور صلعم کی تین شہرہ آفاق احادیث کو مشعلِ راہ بناکر آخرت سنوارنے کو اپنا نصب العین تصّور کرکے عمل پیرا ہے:----


* میرے اھلِ بیت کی مثال کشتیءنوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے دور. ہوا گمراہ ہوکر غرقاب ہوگیا  فرقہءحق وہ ہے جو سفینہء اھلِ بیت پر سوار ہوا اور فرق ہائے باطل وہ ہیں جو اھلِبیت کے سفینے سے فرار یا دور ہوئے
* میں امّت میں دو گرانقدر برابر وزن کی چیزیں قرآن یعنی کتاب اللہ اور اھلِ بیت عترت یعنی وارثان و معلّمانِ قرآن چھوڑ جارہا ہوں جو ان دونوں کو ساتھ رکھیں گے کبھی گمراہ نہ ہونگے حتٰی کہ حوضِ کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے اور جو مسلمان دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑ دیگا گمراہ ہوکر جہنّم کو اپنا ٹھکانا بنالےگا یعنی قرآن اور اھلِ بیت کو ہم رتبہ و ہم درجہ قرار دینے والا فرقہء ناجیہ ہے اور کسی ایک کو ترک کرنے والا فرقہءناریہ میں شمار ہوگا- مقام افسوس اور عبرت ہے کہ رحمت العالمین کے ظاہری پردہ فرمانے سے قبل ہی حدیثِ رسول سے بغاوت کرکے دشمنیءاھلِ بیت میں اعلان کردیا گیا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے جبکہ بعدِ وفاتِ رسول اصحابِ رسول کےلئے قرآن کافی نہیں ہوا اور اکابرین کو درِ اھلِ بیت پر دینی،  شرعی،  فروعی اور فقہی مسائل کےلئے بار بار رجوع کرنا پڑا ایسے موقع پر اللہ کے منتخب ھادی انہیں گمراہی کے بجائے صراطِ مستقیم دکھاتے اور چلاتے رہے اور مشکل کشائ اور حاجت روائی کرتے رہے،  رسول کو اپنا جیسا بشر سمجھنے والے ہوتے تو خلفائے وقت سے بدلہ لینے کےلئے گمراہ اور بے دین کردیتے مگر ائّمہ اطہار نے ان پر ہمیشہ رحمتوں،  برکتوں،  عنایتوں،  شفقتوں، سخاوتوں اور فیّاضیوں کی بارش کرکے دینِ حقّانیہ کو محفوظ رکھ کر پروان چڑھایا نیز اپنے زرّیں مشوروں سے نوازا کیونکہ رب العالمین کے رحمت العالمین نے مولائے کائنات کو صبر و ضبط و تحمّل کی وصّیت کی تھی تاکہ ظاہری خلافت کےلئے امّت فرقوں میں نہ منقسم ہو جائے- اسطرح وفاتِ رسول کے بعد امّت محمدیہ دو فرقوں امامت اور ظاہری خلافت میں منقسم ہوگئ ایک فرقہ غدیری اصحاب اور دوسرا فرقہ ثقیفائ اصحاب کی صورت میں نمودار ہوا اور حضور کے غدیری اعلان اور خطبے کو نظر انداز اور مسترد کردیا گیا جبکہ حضور نے وفات سے قبل بارہ جانشینوں اور خلفاء راشدہ کے نام امام علی سے لیکر امام مہدی تک بتادیا تھا اور ایک موقع پر یہ بھی وضاحت فرمادی تھی کہ بارہ کے بارہ قریشی اور ہاشمی ہونگے اور امامت نسلِ فاطمہ سے بذریعہ نسلِ حسین میں رہے گی مگر امت جمہوریت کے جذبے سے سرشار تھی اور اقوال،  افعال، اعمال،  احوال اور. احکامِ رسول کو فراموش کرکے امت کو غدیری اور ثقیفائ محاذوں پر لا کھڑا کیا گیا
* االوداعی حج کے موقع پر غدیرِ خُم میں دین مکمل ہونے،  اللہ کے راضی ہونے اور نعمتوں کے تمام ہونے اور علی کی ولایت کے اعلان اور" من کُنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ" تقریراً اور تصویراً قرار دینے کے ساتھ حضور نے فرمایا کہ آیتِ موّدت کے تحت بحکمِ الٰہی میں 23 سالہ کار رسالت کا اجر طلب کرتا ہوں- ایک لاکھ 24 ہزار صحابیوں اور حاجیوں نے لبیّک کہا اور حضور نے اھلِ بیت کی محبت اور مودت کو اجرِ رسالت قرار دیا مگر لوگوں نے دو ماہ کے اندر اھلِ بیت کی حق تلفی کرکے خوب اجرِ رسالت ادا کیا اور اس وقت سے آج تک اور امام مہدی کے ظہور تک اجرِ رسالت ادا نہ کرنے کی گویا قسم کھا رکھی ہے- اس طرح دو فرقے وہی برقرار رہے یعنی ایک اجرِ رسالت ادا کرنے والا یعنی مذہبِ اھلِ بیت پر عمل کرنے والافرقہ اور دوسرا اھلِ  بیت سے دور رہ کر اجرِ رسالت ادا نہ کرنے والا فرقہ.. اس شرعی مسئلے سے ساری امّتِ مسلمہ واقف ہے کہ درزی کو سلائ کی اجرت دئے بغیر ااور مزدور کا پسینہ خشک ہونے تک اگر اجرت نہ دی جائے تو اللہ کو عبادات قبول نہیں تو جو شخص اپنے رسول کو اجرِ رسالت ادا نہیں کرے گا اسکی عبادات اللہ پاک کس طرح قبول فرمائیں گے
اب نظر کرتے ہیں حضور کی حدیث مبارک کی طرف کہ میری امّت میں 73 فرقے ہونگے جن میں72 جہنمّی اور ایک ناجی اور جنّتی ہوگا- اسی حدیث کو معیار بناکر ہر فرقہ خود کو جنّتی اور دوسروں کو جہّنمی قرار دیتا ہے جبکہ مندرجہ بالا احادیث کی روشنی. میں دو ہی فرقے ثابت ہیں حق و باطل،  قاتل و مقتول،  ظالم و مظلوم،  صادق و کاذب،  امین و خائن،  مومن و منفق،  سفینہءاھلِ بیت پر سوار اور سفینہءاھلِ بیت سے فرار.. 
دراصل حدیثِ مقدّسہ کا باطنی،  روحانی اور عرفانی مطلب علامتی ہے جو اھلِ معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں جو لوگ حضور کی اس حدیث سے واقف ہیں کہ حسد ایمان کو اس طرح کھجاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو یا دیمک لکڑی کو تو لمحہءفکریہ ہے کہ جب ایمان ہی نہیں بچے گا تو عبادات واجبی و نفلی کس کام کی؟  حضور نے اھلِ شعور کو علامتی باطنی عرفانی بشارت دی ہے کہ جو فرقہ حسد سے دور اور پاک ہوگا وہی ناجی اور جنّتی ہوگا اور جو فرقے حسد میں. مبتلا ہونگے ناری و جہنّمی ہونگے- حروفِ ابجد کے حساب سے " حسد " کے اعداد " 72" ہیں یعنی حسد رکھنے والے مسلمان خواہ کسی بھی فرقے سے تعلّق رکھتے ہونگے جہنّمی ہیں اس طرح طاطنی طور بھی دو ہی فرقے ہیں... حسد نہ رکھنے والے اور حسد رکھنے والے.... 
آخر میں،  میں امّت مسلمہ کے تمام فرقوں کو حسد سے پاک رہ کر اھلِ بیت کی کشتی پر سوار ہوکر جنّت کی حضور کی بشارت کی دعوت دیتے ہوئے آخرت اور عاقبت سنوارنے کی پرخلوص دعوت دیتا ہوں اور فرقوں،  مسلکوں،  طبقوں ، فقہوں اور گروہوں سے بالاتر ہوکر خود کو صرف اور صرف " محمّدی" بننے،  سمجھنے اور ماننے کی التجا کرتا ہوں کیونکہ اللہ ایک،  رسول ایک،  امام ہر دور میں ایک صفاتی محمّدیعنی علی سے مہدی تک،  قرآن ایک،  بیت اللہ ایک،  شریعت،  طریقت،  حقیقت،  معرفت اور وحدت ایک،  سنت و سیرتِ محمد و آلِ محمد ایک،  فقہءمحمدیہ تا مہدیہ ایک،  ذریعہءنجات اھلِ بیت اور سفینہءنجات اور مصباحِ ہدایت حسین.... منافقوں کو چھوڑ کر سارے مسلمان حسین کو دین،  دین پناہ، نجات دہندہ اور مسیحائے انسانیت مانتے ہیں لہٰذا سبھی  بانیءاسلام محمد صلعم،  محافظِ اسلام مولا علی اور مسیحائے اسلام مولا حسین کی محبت میں متّحد ہوکر حسینیت کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مشرکوں،  کافروِں، منافقوں اور دشمنوں کو دندان شکن جواب دے کر اسلام کو دہشت گردوں کا نہیں امن سلامتی اتحاد محبت و اخّوت کا مذہب ثابت کریں.... آمین
* نظام الحسینی

مرارجِ عارفاں

سلطان الہند خواجہ معین الدین اجمیری نے ایک مجلس میں عرفاء کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ خواجہ ذوالنون مصری ایک صوفی نے سوال کیا کہ عارف کسے کہتے ہیں؟  انہوں نے جواب دیا کہ عارف ہو لوگ ہوتے ہیں جن کے دل سے بشریت کی کدورت دور ہوجاتی ہے اور انکے دل حرص و ہوس سے پاک ہوجاتے ہیں اور ان میں عشقِ الٰہی موجزن ہوجاتا ہے- غیر کی طرف وہ آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے اور محض عالمِ تصوف ہوکر صوفی بن جانا مناسب نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ خود کو ہمہ تن اخلاق بنانا ہوگا- عارف دنیا کا دشمن اور مولا کا دوست ہے وہ دنیا سے بچتا ہے کیونکہ اس میں حسد و بغض کے سوا اور ہے ہی کیا؟  جو شخص دنیا میں مشغول ہوگیا وہ حق سے دور ہوگیا- اسی طرح  ایک دفعہ خواجہ حسن بصری سے کسی نے عارف کی تعریف پوچھی- انہوں نے جواب دیا کہ عارف وہ ہے جو دنیا سے غرض نہ رکھے اور جو کچھ اسکے پاس ہو راہِ خدا میں لٹادے- خواجہ غریب نواز نے ایک مجلس میں،  جس میں انکے خل یفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے علاوہ شیخ اوحد الدین کرمانی،  مولانا بہاء الدین اور چند دیگر درویش نھیش حاضر تھے،  فرمایا کہ عارفوں کا توّکل یہ ہے کہ اللہ پاک کے سوا کسی غیر سے ہرگز مدد نہ مانگیں بلکہ کسی غیر کو دھیان میشں نہ لائیں- ایک دفعہ خواجہ جنید بغدادی سے پوچھا گیا کہ عارف کا توکل کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ عارف کا توکل یہ ہے کہ اسکا دل ان تین چیزوں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دے اوّل علم دوم عمل سوم خلوت- ایک اور بزرگ نے کہا کہ عارف وہ ہے جو سوائے ذاتِ الٰہی کے کسی سے محبت نہ کرے اسی طرح ایک اور بزرگ نے کہ کہ عارف کےلئے ضروری ہے کہ وہ موت کو دوست رکھے بےقراری کی حالت میں ذکرِ الٰہی سے راحت حاصل کرے اور دوست کی آمد کے وقت. مضطرب ہوجائے- خواجہ صاحب نے آتشِ نمرود کے موقع پر جبریل نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے دریافت کیا کہ میں آپکی کوئ حاجت پوری کرسکتا ہوں حضرت ابراہیم نے جواب دیا نہیں تم سے کوئ حاجت نہیں ہے جس سے ہے اس سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے جب وہ سب کچھ جانتا ہے تو پھر میں کسی اور سے مدد کیوں مانگوں- خواجہ صاحب نے مزید کہا کہ انکے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کا کہنا ہے کہ اہلِ محبت سوائے دوست کے کسی اور کی محبت اپنے دل میں جاگزیں نہیں ہونے دیتے جس نے غیر کی طرف دیکھا رنج و غم میں مبتلا ہوا جو دوست کا طلبگار نہیں ھیچ در ھیچ ہے- سہروردی سلسلے کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ دنیا میں دو چیزیں بہت ہی اچھی ہیں ایک صحبتِ فقراء اور دوسری حرمتِ اولیاء- عارفوں کے نزدیک خوف یہ ہے گناہ ترک کردیا جائے تاکہ دوزخ سے نجات ملے،  رجا یہ ہے کہ مولائے کریم کی طاعت بےریا کی جائے تاکہ منزل پر پہنچ کر حیاتِ ابدی حاصل کرے محبت یہ ہے کہ ہر وقت رضائے الٰہی کے حصول میں کوشاں رہے-
 کمال عشق
 ایک دفعہ کسی نے منصور حسین حلاج سے پوچھا کہ دوست کے عشق میں درجہءکمال کیا ہے؟  جواب دیا کہ دوست جو چاہے کرلے عاشق کو ہر حال میں سرِ نیاز جھکانا ہے- دکھ سکھ برا بھلا جو کچھ بھی ہو اسے یار کی طرف سے سمجھ کر خوشی سے قبول کرے ہر وقت کمرِ ہمت باندھ کر رکھے اور احکامِ الٰہی کی تعمیل کرتا رہے- مشاہدہءحق میں اسکے استغراق کا یہ عالم ہوکہ کسی چیز کی سدھ بدھ نہ رہے یہی مقام خاص الخاص ہے- ایک دفعہ شیخ داؤد طائ اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے تو آنکھیں بند تھیں،  ایک بزرگ نے بند رکھنے کا سبب پوچھا جواب دیا کہ میں نے 45 سال سے آنکھیں کھولنا ترک کیا ہوا ہے کہ سوائے دوست کے کسی غیر پر میری نظر نہ پڑے کیونکہ دوست کے سوا کسی دوسرے کو دیکھنا شرطِ محبت نہیں ہے- ایک مرتبہ جنید بغدادی سے کسی نے پوچھا کہ راہِ طریقت میں محبت کسے کہتے ہیں؟  جواب دیا کہ عشقِ  الٰہی یا محبتِ الٰہی کا حاصل یہ ہے کہ اللہ اپنے محب کے دل میں اپنے دیدار کا ذوق و شوق پیدا کردیتا ہے اور اسے سرداری عطا کرتا ہے- عاشقِ الٰہی سے کوئ فعل ایسا سرزد نہیں ہوتا جس سے حق سے دوری ہو کیونکہ جس نے حق کو راضی کرلیا،  حق اسکا دوست بن گیا اور جنّت اسکے دیدار کی مشتاق-خواجہ ابو سعید ابو الخیر فرماتے تھے کہ جب اللہ کسی بندے کو اپنا دوست بناتا ہے تو اسکو اپنی محبت عطا کردیتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو ہمہ تن  اسکی رضا کےلئے خود کو وقف کردیتا ہے- آخر حق تعالٰی اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے تاکہ وہ فنا فی اللہ ہوجائے- اہلِ سلوک کے نزدیک توبہ کی تین اقسام ہیں اول عبادت کےلئے کم سونا دوم دعو کےلئے کم بولنا سوم کم کھانا تاکہ روزہ کی شرط ادا ہوجائے-
خواجہ صاحب نے ایک مجلس میں عشق صادق کے بارے میں بتایا کہ عشق میں صادق وہ شخص ہے کہ خواہ دوست کی طرف سے اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں وہ زبان سے اُف تک نہ کرے اور بخوشی یہ مصائب برداشت کرکے شکر ادا کرے- شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ عشق میں صادق وہ شخص ہے کہ اسکے سر پر ہزاروں تلواریں آ پڑیں مگر عالمِ شوقِ دید میں اسے خبر تک نہ ہو- ایک دفعہ قلندر رابعہ بصری،  جو حسن بصری کی طالبہ تھیں،  خواجہ حسن بصری،  خواجہ شفیق بلخی اور مالک دینار ایک مجلس میں یکجا تھے وہاں عشقِ صادق پر گفتگو ہونے لگی-  حسن بصری نے کہا کہ اگر انسان کو عشقِ الٰہی میں کچھ دکھ پہنچے تو صبر کرے- رابعہ بصری نے فرمایا کہ خواجہ اس سے تو  خودی کی بُو آتی ہے- اب مالک دینار نے فرمایا کہاگر انسان کو عشقِ الٰہی میں کچھ دکھ پہنچے تو پھر بھی خوش رہے اور اللہ کی خوشنودی کا طالب رہے- رابعہ بصری نے فرمایا کہ عقشقِ صادق کو اس سے بھی بڑھکر ہونا چاہئے اس پر شفیق بلخی فرمانے لگے کہ عاشقِ صادق وہ ہے کہ اسے ذرّہ ذرّہ کردیا جائے پھر بھی اُف نہ کرے- رابعہ بصری نے فرمایا کہ میرے نزدیک عشقِ صادق یہ ہے کہ عاشق کو خواہ لاکھ مصائب پہنچیں وہ مشاہدہءحق سے غافل نہ ہو- خواجہ اجمیری بھی رابعہ بصری سے متفق تھے
فقرِ صادق
فقرِ صادق یا فقرِ حقیقی مفلسی یا قلاشی نہیں ہے بلکہ اسکا یہ مطلب ہے کہ انسان ہر قسم کی حرص و طمع سے آزاد رہ کر اللہ سے لو لگائے رکھے اور کوئ کامیابی یا محرومی اس میں سرکشی یا پستی کا جذبہ پیدا نہ  کرسکے- ایک باثروت شخص اور ایک باجبروت بادشاہ بھی فقرِ حقیقی کا حامل ہوسکتا ہے بشرطیکہ اسکی دولت و سطوت محض اللہ کےلئے وقف ہو- جب فقر الی اللہ درست ہوجاتا ہے تو غنا غنی باللہ میّسر آتا ہے یہ دونوں احوال ہیں اور ایک کی دوسرے کے بغیر تکمیل نہیں ہوتی- ابو بکر شبلی کا قول ہے کہ فقر کی ادنٰی ترین علامت یہ ہے کہ  اگر کوئ شخص تمام دنیا کا مالک ہوکر اسکو ایک ہی دن میں خرچ کرڈالے اور پھر اسکے قلب میں یہ خطرہ گزر جائے کہ اس میں سے صرف ایک دن کی روزی روک لیتا تو اسکا فقر صادق نہیں ہے- قشیری رسالہءقشیریہ میں یحٰی بن معاذ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ فقر کی حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا ہر چیز سے بے نیازی ہو- یعنی فقر صادق حقیقت میں ترکِ دنیا ہے لیکن اسے جوگ اور رہبانیت سے دور کا واسطہ نہیں- سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ ترکِ دنیا کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو برہنہ کرلے مثلاً لنگوٹ باندھ کر بیٹھ جائے- ترکِ دنیا یہ ہے کہ انسان لباس بھی پہنے اور کھانا بھی کھائے البتہ جو کماتا رہے خرچ کرتا رہے جمع کرکے نہ رکھے اور دنیا کی چیزوں میں دل نہ لگائے دنیا پرستی نفس پرستی ہوس پرستی اور دنیا طلبی سے کوسوں دور رہ کر خدمتِ خلق کو نصب العین بنائے رکھے-
 مندرجہ بالا حوالہ جات کا ایک ہی مقصد ہے کہ امِّ مسلمہ باور کرلے کی شریعت اور طریقت ایک سکّے کے دو رخ اور لازم و ملزوم ہیں شریعت پر عمل کرکے ہی طریقت،  حقیقت،  معرفت اور وحدت کی منازل سے ہمکنار ہوکر راہِ سلوک کا مسافر عارف باللہ پر فائز ہوتا ہے- یہ حقیقت عیاں ہے کہ علمِ لدّنی،  معرفت اور تصّوف کے روحِ رواں حضرات پنجتن پاک،  اھلِ بیت اور آلِ محمد ہیں اور ان ہی سے صالح اور طاعت گزار اصحابِ رسول،  تابعین اور تبع تابعین فیضیاب ہوئے جن میں اصحبِ صفّہ قابل ذکر ہیں اور اللہ کے منتخب ائمہ اثنا عشری میں سے 8 ویں امام مطہر تک اولیاء،  عرفاءاور صوفیاء کو بیعت و خلافت دیکر باطنی،نورانی،  روحانی اور عرفانی علوم و تعلیمات سے منّور فرمایا اسکے بعد غیر آلِ محمد بھی پیر و مرشد بنتے گئے اور سلاسل وجود میں آئے جس طرح شریعت میں شروع سے آخر تک یعنی محمد سے مہدی تک ایک ہی شریعت ایک ہی سنت ایک ہی سیرت اور ایک ہی فقہءحقانی ہے اسی طرح طریقت،   حقیقت،  معدفت اور وحدت سب کا منبع،  محور اور مرکز محمد و آلِ محمد ہیں اور جو معرفت اور تصوف پنجتن پاک،  اھلِ بیت،  آلِ محمد سے ہٹ کر ہے وہ معرفتِ دنیاوی تو ہوسکتی ہے معرفتِ الٰہی ہرگز نہیں ہوسکتی- میں نے چند اولیاء و صوفیاء و عرفاء کے احوال و اقوال اس لئے پیش کئے کہ اندازہ ہوسکے کہ جن خاص الخاص اشخاص نے علم شریعت اور معرفت در پنجتن پاک اور آلِ محمد باالخصوص شاہِ ولایت مولا علی اور شہنشاہ الفقراء حضرت امام حسین سے پھر انکے غلاموں سے پھر انکے خادموں اور مقّلدوں سے حاصل کیا وہ فقر و معرفت کے کتنے اعلٰی و ارفع مقامات پر فائز ہوکر غوث،  قطب،  ابدال،  ابرار،  اخیار اور نقباء بن گئے اور حرفِ آخر ولی بن گئے یا علی کہنے والے.... جب ان غلاموں کے غلاموں کا اللہ کی نظروں میں یہ اعلٰی مقام ہے تو انکے آقاؤں کی معرفت کون بیان کرسکتا ہے سوائے اللہ اور رسول صلعم کے......... 
* نظام الحسینی

نیاز بے نیاز حضرت مولانا شاہ نیا بریلوی قادری چشتی

ندستان کے کامل ولی اور صوفی باصفا،  دانائے رازِ شریعت و طریقت،  نیاز بے نیاز حضرت مولانا شاہ نیا بریلوی قادری چشتی سرھند شریف میں 1742 ء میں پیدا ہوئے- آپ حضرت محمد حنفیہ بن شاہ ولایت مولا علی علیہ السلام کی اولاد میں ہیں- آپ کشف و کرامت کے مالک اور بہت عمدہ صوفی شاعر تھے

نیاز ایسا ولی بر حق کہ پیر و مرشد ہو اولیاء کا
بتا تو امّت میں اس نبی کی کوئ بھی بن بو تراب دیکھا

عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو

!مدرسہ میں عاشقوں کے جسکی پہلی بسم اللہ ہو
اسکا پہلا ہی سبق یارو فنا فی اللہ ہو 

 کافرِ عشق ہوں میں بندہءاسلام نہیں
بت پرستی کے سوا اور مجھے کام نہیں۔

معرفتِ سورہ فاتحہ

.........................................................................
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری نے سورہ فاتحہ کی برکات کے بارے میں فرمایا کہ حاجات پوری ہونے کے لئے سورہ فاتحہ کثرت سے پڑھما چاہئے،  حضور صلعم نے فرمایا ہے جس کسی کو کوئ مشکل پیش آئے وہ سورہ فاتحہ کو اس طرح پڑھا کرے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی آخری. میم کو الحمد اللہ رب العالمین سے ملادے یعنی رحیم کی میم کو الحمد کے وصل کے ساتھ پڑھے اور آخر میں ہر تین مرتبہ آمین کہے اللہ پاک اسکی مشکل آسان کردیں گے
حضور صلعم نے ایک دفعہ صحابہ کو بتایا کہ ایک دن جبریل میرے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ خدا فرماتا ہے کہ میں نے ایک سورہ آپ پر ایسی نازل کی ہے کہ اگر توریت میں ہوتی تو بنی اسرائیل سے کوئ یہودی نہ ہوتا اگر زبور میں ہوتی تو کوئ داؤد علیہ السلام کی امت سے ترسا نہ ہوتا اگر انجیل میں ہوتی تو کوئ شخص عیسٰی علیہ السلام کی امت سے ترسا نہ ہوتا- یہ سورہ قرآن مجید میں اسیلئے نازل کی گئ ہے کہ اسکی برکت سے آپکی امت قیامت کے دن خداوند کریم کے سامنے سرخرو ہو- اس سورہ کی یہ عظمت ہے کہ اگر تمام روئے زمین کے دریاؤں کا پانی روشنائ بن جائے اور تمام روئے زمین کے درختوں کے قلم بنائے جائیں تو بھی اس سورہ کی تلاوت کی برکات لکھی نہیں جا سکتی ہیں- اسکے بعد خواجہ صاحب نے مزید فرمایا کہ سورہ فاتحہ تمام امراض کی دوا ہے جو شخص کسی بھی موذی مرض میں مبتلا ہو اگر سورہ فاتحہ کی سنّتوں اور فرضوں کے درمیان بسم اللہ کے ساتھ سورہ فاتحہ 41 بار پڑھ کر اس پر دم کیا جائے تو اللہ پاک اس بیمار کو شفا دے گا- حضور صلعم نے فرمایا کہ الفاتحہ شفاء من کّل داءٍ یعنی سورہ فاتحہ ہر درد کو شفا بخشتی ہے-
 خواجہ نے یہ حکایت بیان کی کہ ایک دفعہ خلیفہ ہارون رشید کسی موذی مرض میں مبتلا ہوگیا اور دوسال پریشان رہا،  خواجہ فضیل بن عیاض کو اسکی درخواست پر رحم آگیا اور آپ نے اپنا دستِ مبارک اسکے جسم پر رکھا اور 41 بار سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اسی وقت خلیفہ کو شفا مل گئ- خواجہ صاحب نے پرہیز بتایا کہ. بدعقیدگی اور بے یقینی سے ہر حال میں گریز لازم ہے- ہر کام میں اخلاص اور عقیدہ میں درستی ہونی چاہئے- ایک دفعہ حضرت مولا علی علیہ السلام نے ایک بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اسے مکمل شفا ہوگئ اسکا ایک واقفکار اسکی عیادت کےلئے آیا اور حیران ہوکر پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیسے شفایاب ہوگئے اس شخص نے احوال سنایا مگر وہ واقفکار بدعقیگی اور بےیقینی کا شکار تھا اللہ کی قدعت کہ اسے فوراً یہ بیماری لاحق ہوگئ اور بدعقیدگی کی وجہ سے مرگیا- یہ تھی مولا علی سے بدعقیدگی کا نتیجہ- 
  قرآن پاک کا نچوڑ یا مغز،  محور و منبع سورہ فاتحہ ہے- اللہ پاک نے قرآن حکیم کی تمام سورتوں کا ایک ایک نام مقرر کیا ہے مگر سورہ فاتحہ کے سات نام رکھے ہیں1- فاتحہ الکتاب2- سبع المثانی3- اُّم الکتاب4- اّم القرآن5- سورہ مغفرت6- سورہ رحمت7- سورہء الثانیہ یا سورہء کنز
اس سورہ میں سات حروف نہیں آئے ہیں یعنی ث،  ج،  ز،  ش، ظ،  ف اور خ
معروف واقعہ ہے کہ ایک بار نماز مغربین کے بعد مولا علی کے ذہین اور ذی شعور شاگرد عبداللہ ابن عباس نے مولائے کائنات و قرآن ناطق مولا علی سے سورہ فاتحہ کی تفسیر دریافت کی اور مولا نے پہلی آیت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے تفسیر شروع کی تو فجر کی اذان ہوگئ اور بسم اللہ کی تفسیر نامکمل رہی اس پر مولا علی نے ابن عباس سے فرمایا کہ اگر میں سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کروں تو 70 اونٹوں پر اسکا بار نہ اٹھایا جاسکے گا- ابن عباس اتنا سمجھ لو جو کچھ پورے قرآن میں ہے ہو سب سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ سورہ فاتحہ میں ہے وہ سب کچھ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ الرحٰمن الرحیم میں ہے وہ سب کچھ بسم اللہ میں اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ سب کچھ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بائے بسم اللہ میں ہے وہ سب کچھ ب میں ہے اور ب کا نقطہ میں ہوں اور پورا کا پورا قرآن سمٹ کر نقطے میں آگیا جو ذاتِ علی ہے..... یہ معرفتِ سورہء فاتحہ ہے جو سِّرِ وحدت ہے اور سوائے عاشقان اور غلامانِ علی جو اولیاء،  صوفیاء،  اصفیاء اور عرفاء ہیں علمائے ظاہر اور علمائے شریعت سورہء فاتحہ کے اسرار و رموز سے واقف نہیں ہوسکتے. کیونکہ وہ طریقت،  معرفت،  حقیقت اور وحدت کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا گمراہی تصّور کرتے ہیں.... سیّد المشائخ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے سورہ فاتحہ کی جو معرفت حاصل کرکے اسکے فیوض و برکات و مناقب بیان فرمائے ہیں وہ تشنگانِ معرفت کی خدمت میں پیش ہیں کیونکہ شہنشاہِ معرفت مولا علی اورآلِ محمد کے عرفان کا کوئ بھی احاطہ کرنے سے قاصر ہیں انکے غلاموں کے غلاموں کا عطائ عرفان ہی ہمارے لئے چراغِ راہ ہے بشرطیکہ ہم اھلِ معرفت اور اھلِ تصّوف کو عاشقان و غلامانِ پنجتن پاک و آلِ محمد تسلیم کریں اور شریعت،  طریقت،  حقیقت،  معرفت اور وحدت سے آشنائ کو منزل مقصود گردانتے ہوئے رضائے الٰہی کی جستجو کو نصب العین سمجھکر اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے چاہیں 
1-"ث" پہلا حرف ثبور کا ہے جسکے معنی ہلاکت کے ہیں اس سورت کا پڑھنے والا ثبور یعنی ہلاکت سے محفوظ رہے گا
2-" ج" پہلا حف جہنم کا ہے اس سورت کا پڑھنے والا جہنم سے محفوظ رہے گا
3-"ز" پہلا حرف زقوم کا ہے اس سورت کا پڑھنے والازقوم یعنی تھوہر سے کچھ سروکار نہ ہوگا
4-" ش" پہلا حرف شقاوت کا ہے اس سورت کے پڑھنے والا شقاوت سے پاک رہے گا
5-" ظ" پہلا حرف ظلمت کا ہے اس سورت کا پڑھنے والا ظلمت میں نہیں پڑے گا
6-" ف" کا پہلا حرف فراق کا ہے اس سورت کا پڑھنے والا فراق کے مصائب سے محفوظ رہے گا
7-" خ" کا پہلا حرف خواری کا ہے اس سورت کا پڑھنے والا خواری. سے محفوظ رہے گا
خواجہ صاحب نے پھر فرمایا کہ امام ناصر بستی کا قول ہے کہ اس سورت میں سات آیات ہیں اور انسان کے جسم میں بھی سات بڑے اعضاء ہیں اس سورت کے بکثرت پڑھنے والے کے ساتوں اعضاء کو اللہ نارِ جہنم سے بچائے گا- اھلِ سلوک کا قول ہے کہ سورہ فاتحہ میں124 حروف ہیں اور ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء گزرے ہیں گویا کہ ہر حرف کےلئے ایک ہزار پیغمبروں کا ثواب رکھا گیا ہے- جو اسکے پڑھنے. والوں کو ملے گا- پھر فرمایا کہ الحمد میں پانچ حروف ہیں اور اللہ نے پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے پس جو بندہ ان پانچ حروف کو پڑھتا ہے اس سے جو نقصان پانچ نمازوں میں واقع ہوگا اللہ تلاوتِ الحمد کی بدولت اسکا نقصان معاف فرمائے گا-  للّہ کے تین حروف ہیں تین کو پانچ میں ملائیں تو آٹھ بنتے ہیں لہٰذا اللہ پاک اسکے پڑھنے والے کےلئے بہشت کے آٹھوں دروازے کھول دینگے کہ جس دروازے سے چاہے بہشت میں داخل ہو-" رّب العالمین "میں دس حروف ہیں،  دس میں آٹھ ملائیں تو اٹّھارہ بنتے ہیں- اللہ پاک نے 18 ہزار عالم پیدا کئے ہیں- اسکا پڑھنے والا 18 ہزار عالم کا ثواب پاتا ہے- " الرحٰمن" میں چھ حروف ہیں- 18 میں6 ملائیں تو24 بنتے ہیں رات دن کے 24 گھنٹے ہیں تو ان حروف کو پڑھنے والا رات دن میں گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا گویا شکمِ مادر سے آج پیدا ہواہے-" الرحیم" کے 6 حروف ہیں 24 میں6 ملائیں تو 30 بنتے ہیں- پل صراط کی مسافت 30 ہزار برس کی ہے سورہ فاتحہ کا پڑھنے والا یہ طویل مسافت برق رفتاری سے طے کرجائیگا-" مالک یوم الدین" میں 12 حروف ہیں30 میں12 ملانے سے 42 نبتے ہیں اور سال کے12 مہینے اور ہر ماہ کے 30 دن ہوتے ہیں اسکے پڑھنے سے 12 ماہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں-" ایّاک نعبُد میں8 حروف ہیں اگر42 میں8 جمع کئے جائیں تو50 بنتے ہیں- قیامت کا دن 50 ہزار برس کا ہوگا- ان حروف کو پڑھنے والے کے ساتھ قیامت کے دن صدیقوں کا سا معاملہ کیا جائیگا-" و ایّاک نستعین" میں11 حروف ہیں 11 کو50 میں ملائیں تو61 بنتے ہیں جوشخص اسے پڑھے گا اسے زمین اور آسمان کے61 دریاؤں کے قطروں جتنا ثواب ملے گا اور اسی قدر قطرات کے برابر اسکے نامہءاعمال سے بدی دھو ڈالی جائیگی-"اھدنا الصراط المستقیم" میں 19 حروف ہیں اگر 19 کو61 میں جمع کردیں گے تو 80 ہونگے اور شراب پینے کی سزا 80 درّے مقرر ہے- ان حروف کا پڑھنے والا اس سزا سے اس طرح محفوظ رہے گا کہ اللہ اسے ہر حال میں شراب نوشی سے بچائے گا-" صراط الذین انعمتُ علیھم غیر المغضوب علیہم ولاالضّالین" میں 44 حروف ہیں اگر 44 کو 80 میں ملایا جائے تو124 بنتے ہیں اللہ نے ایک لاکھ 24 ہزار انبیآء کے برابر ثواب عطا کیا ہے اللہ اسے بخش دیگا- اسکے بعد خواجہ غریب نواز نے فرمایا

وہ اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ساتھ سفر پر تھے راہ میں دریائے دجلہ آگیا جہاں کوئ کشتی دستیاب نہیں تھی میری پریشانی دیکھ کر مرشدِ کامل نے فرمایا کہ ایک ساعت کےلئے آنکھیں بند رکھو اور میرا ہاتھ تھام لیا اور پھر فرمایا کہ آنکھیں کھولو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہم لوگ دریا کے دوسرے کنارے موجود تھے چشم زدن میں- مرشد نے کہا کہ تعجب نہ کرو کیونکہ پانچ مرتبہ صدقِ دل سے سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے سے ساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں اور اللہ پاک کی رحمت شاملِ حال ہوجاتی ہے-..... نظام الحسینی








Let's look within ?

One night Rabia, a noble Sufi saint, was desperately searching for something on the street outside her small hut. When Hasan, returned from work, he saw this and curiously asked, “Rabia, my dear, what are you looking for, here on the street, at this hour?”


Rabia replied, “I lost my needle.”



Hasan joined her in the search, but after searching for a while, he asked, “Can you try and recollect where you might have dropped it?”



Rabia said, “Of course, I remember. I dropped it near the bed, in our hut.”



Hasan mocked her, “Are you insane? You lost it inside the house, then why are we looking for it outside?”

Rabia innocently replied, “There was no oil left in our lamp. It was pitch dark inside the house to search for it. Hence I thought of searching for it outside, since there was enough streetlight here.”


While holding his laugh, Hasan said, “You are really acting weird. If you lost your needle inside the house, how could you even expect to find it outside?”



Rabia simply smiled back at Hasan and Hasan got the beautiful moral behind her silly act. We are all seeking outside, what we have lost inside us. Why, just because it is pitch dark inside? Silly, aren’t we? Light the lamp inside you. Find your lost treasure.



Nothing in this world outside will make us happy, if we are unhappy from inside. Many a times, people who have much less than us are much happier than us. Happiness is self generated. You are not expected to be unrealistically happy when your life may be miserable. When life is harsh on you, stay at peace and wait for happy days peacefully. This too shall pass. When your peace of mind is lost, remember where to look for it, INSIDE.



If an egg is broken by an outside force, LIFE ENDS. If broken by an inside force,  LIFE BEGINS. You will find all the treasures of life, all the secrets of life INSIDE.

قصائدِ علی بزبانِ رسول

رسول خدا کے ارشادات:---
* میں اور علی ایک نورِ واحد سے ہیں
قرآن کی آیت ہے کہ پس تم اللہ،  اسکے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جس کو ہم نے نازل کیا
* میں شہرِ علم ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے پس جس شخص کو علم حاصل کرنا ہو تو دروازہ یعنی علی کے پاس آئے
* میں شہرِ حکمت ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے
* میں میزانِ علم ہوں اور علی اسکے پلّے ہیں
* یا علی اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومن کی شناخت نہیں ہوسکتی تھی
* علی کی محبت ایمان ہے
* علی کے چہرے پر نظر کرنا عبادت ہے... مردی از حضرت عائشہ
* علی کا ذکر عبادت ہے
* جس نے علی کی تنقیص کی اس نے میری تنقیص کی
* جس نے علی سے حسد کیا اس نے مجھ سے حسد کیا اور جس نے مجھ سے حسد کیا وہ کافر ہوگیا
* جس نے علی کو چھوڑا اس نے مجھ کو چھوڑا اور جس نے مجھ کو چھوڑا اس نے خدا کو چھوڑا
* جس نے علی کو ایذا دی اس نے مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی
* جس نے علی کو دشنام دی اس نے مجھ کو دشنام دی
* جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی جس نے علی کو غضبناک کیا اس نے مجھ کو غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا اس نے خدائے عز و جل کو غضبناک کیا
* یا علی جس نے تمہاری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے تمہاری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی
* مومن کبھی علی سے بغض نہیں کرے گا اور منافق کبھی علی سے محبت نہیں کرے گا
* علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ.. خداوندا حق کو اسی طرف گردش دے جدھر علی پھریں
* ہمارا اوّل بھی محمد ہے اوسط بھی محمد او آخر بھی محمد اور ہم سب کے سب محمد ہیں
*  بہ تحقیق کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور علی میرے بعد تمام مومنین کا ولی ہوگا
* جنگِ خیبر میں ارشادِ رسول ہے کہ خدا کی قسم کل میں یہ علم اس شخص کو دونگا جو اللہ اور رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ و رسول اسکو دوست رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کر حملے کرنے والا ہوگا اور فرار ہونے والوں میں نہیں ہوگا اور وہ اسکو سختی سے فتح کرے گا
* جنگ خندق میں جب حضرت علی نے عمر بن عبدود کو قتل کردیا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ خندق کے روز علی کی ایک ضربت میری امّت کے اعمال سے جو وہ قیامت تک بجا لائے گی،  افضل ہے.... شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسی تناظر میں کہا ہے
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
ایک ضرب ید الٰلٰہی ایک سجدہءشبّیری
* یا علی تمہاری ایک ضربت کونین کی عبادت پر بھاری ہے
- کُلِ ایمان کُلِ کفر کے مقابلے پر جارہا ہے
* یا علی تم جنت و جہنّم کے تقسیم کرنے والے ہو
* علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں میری اس امانتِ رسالت کو سوائے میرے اور علی کے کوئ ادا نہیں کرسکتا
* یاعلی تم میرا وجود ہو میرا گوشت ہو میری روح ہو میرا نفس ہو میرا قلب ہو میرا نور ہو میری فکر ہو
*  یا علی تمہاری مثال لوگوں میں ایسی ہے جیسے قرآن میں سورہ اخلاص قل ھو اللہ احد
ایک شاعر غالباً خواجہ معین الدین چشتی نے کیا خوب کہا ہے
یا علی ذاتت ثبوت قل ھو اللہ احد+ نام تو نقش نگین امر اللہ الصمد
لم یلد از ما در گیتی ولم یولد چو تو+ لم یکن بعدِ از نبی مثلت لہ کفواً احد
اہل سنّت کے معتبر اور شیدائے علی رہبر شافعی نے مولا علی کی منزلت کی بہت تحقیق کی اور بالآخر لکھا کہ
لو انّ المرتضٰی ابدی معلّہ+ لصار الناس طرّا سجداً لہ
کفٰی نی فضل مولانا علی+ وقوع الّشک فیہ انہہ اللہ
ومات الشافعی و لیس یدری+ علی ربّہہ ام ربّہہ اللہ
ترجمہ:-- اگر علی مرتضٰی اپنا مقام ظاہر کردیتے تو تمام لوگ انکو سجدہ کرنے جمع ہوجاتے- ہمارے مولا علی کی فضیلت میں یہی کافی ہے کہ سک واقع ہوتا ہے کہ یہ اللہ ہیں- شافعی مرگیا مگر سمجھ نہ سکا کہ علی اسکے رب ہیں یا اللہ اسکا رب ہے- ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
 ھا علی بشر کیف بشر+ ربہہ فیہ تجّلی و ظھر
میرا اپنا ذاتی عقیدہ ہے اگر علی کی محبت و عشق رافضیت ہے تو اللہ،  رسول،  جبریل کے علاوہ شافعی بھی رافضی ہیں کیونکہ یہ سبھی عاشقانِ علی ہیں
* اگر لوگ علی بن ابی طالب کی محبت پر جمع ہوجاتے تو اللہ دوزخ کو پیدا ہی نہ کرتا
* علی کو دشنام نہ دو کہ وہ ذاتِ خدا میں گھل مل گئے ہیں یعنی فنا فی اللہ سے بقا باللہ ہوگئے ہیں.
یا علی نہیں پہچانا کسی نے سوائے میرے اور تمہارے،  نہیں پہچانا کسی نے مجھ کو سوائے اللہ کے اور تمہارے،  اور نہیں پہچانا کسی نے تم کو سوائے اللہ کے اور میرے- پھر یہ لوگ کس طرح کہتے ہیں کہ تمہاری معرفت حاصل کرلی
ہر نبی کا ایک رازدار ہوتا ہے یا علی تم میرے رازدار ہو
* یا علی!  اگر مجھے نہ ہوتا کہ میری امّت تمہارے لئے وہی کہنے لگے گی جو نصارٰی عیسٰی کےلئے یعنی اللہ کا بیٹا کہتے ہیں تو میں تمہارے چند فضائل بیان کرتا پھر لوگ تمہارے قدموں کے نیچے کی مٹّی لے کر اپنے بیماروں کےلئے شفا حاصل کرتے
نوٹ:---- مولا علی کی منزلت،  افضلیت،  اہمیت،  افادیت اور تسلیمیت کا بیان بلاشبہ سوائے اللہ و رسول کے کوئ بھی عارف یا عاشق نہیں کرسکتا اور بنظر شریعت،  طریقت،  حقیقت،  معرفت اور سِّرِ وحدت رسول اللہ کے بعد روزِ اّول سے خلقتِ آدم سے قبل کے بعد نور علی روح علی نفسِ علی اور ظاہری،  باطنی،  نورانی،  روحانی اور عرفانی علی کی ذات سے زیادہ اعلٰی اور افضل ترین ذات مولائے کائنات علی بن ابیطالب کے علاوہ کسی کی نہیں بسکی دلیل خود اللہ اور رسول کا فرمان ہے اب یہ الگ بات ہے کہ اللہ و رسول کا کلمہ پڑھ کر خود کو مسلمان کہلانے کے دعویدار ہیں مگر مذکورہ بالا احادیث پر انکا نہ عقیدہ، نہ ایمان نہ عمل وفاتِ رسول کے بعد رہا اور اس طرح ولایت،  امامت،  وصایت اور ظاہری دنیاوی خلافت کے حقدار مولا علی کی حق تلفی کی گئ اور احکام اور اعلانِ اللہ و رسول امّت نے فراموش اور نظر انداز کردئے گئے اور نعوذ باللہ خلافت ظاہری میں مولا علی کو خلیفہء بلا فصل ماننے کے بجائے چوتھا خلیفہ بلحاظ فضیلت مانتے ہیں یعنی رسول کے خلیفہء اوّل سب سے افضل اسکے بعد خلیفہ دوم اسکے بعد خلیفہ سوم اور چوتھے مقام پر علی افضل جبکہ اسکے برعکس اللہ و رسول سب سے افضل مولا علی کو جانتے اور مانتے ہیں- مجھے نہ کوئ رائے زنی،  تبصرہ یا تاثر نہیں اظہار نہیں کرنا ہے،بس اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ امّتِ مسلمہ کےلئے لمحہءفکریا ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کے آبا و اجداد ابلیس اور اسکے مریدوں کی چالوں میں آکر گمراہیی کی دلَدل میں علماء کے زیر اثر پھنس جاتے تھے مگر آج تو انٹر نیٹ کے ذریعے علمِ کثیر کا منطقی اور دلیلی دور ہے لہٰذا اللہ و رسول کے فرمودات پر غور و فکر کرکے اھلِ بیت کے سفینے پر سوار ہوکر صحابیت کے چکر ویو سے نجات حاصل کرکے ماضی کی غلطیوں،  کوتاہیوں نادانیوں،  حماقتوں اور جہالتوں کا ازالہ کریں اور مذہب اھل بیت یعنی محمدیت اختیار کریں اور یقین کرلیں کہ فرقہ،  فقہ،  مسلک اور مذہب بس ایک ہی محمّدی باقی فقہیں،  فرقے اور مسالک دنیاوی،  سیاسی اور شخصی پیداوار ہیں... آخرت میں علماء،  فقہاء اور مجتہدین اپنا دامن بچالیں گے اگر چہ میری نظروں میں اللہ رسول اور آلِ محمد کے سب سے زیادہ معتوب و مطعون وہی ہونگے جب روزِ محشر اللہ کی عدالت میں حقوقِ آلِ محمد کی حق تلفی اور غصبیت کی پاداش میں وہ کٹہرے میں کھڑے ہوکر بغلیں جھانکیں گے اور جنت و جھنم کے قسیم مولا علی اپنی ولایت،  امامت،  وصایت اور ظاہری خلافت سے منحرفوں کا گریبان پکڑیں گے اور امّتں مسلمہ کے فرقوں کے نام نہاد اور خودساختہ رہبروں کو اللہ و رسول کے سامنے جوابدہ ہونا پڑیگا جب حضور فرمائیں گے میں نے رخصت ہونے سے پیشتر امّت کو نجات کا نسخہ بتادیاتھا کہ نجات کےلئے اھل بیت کی کشتی پر سوار ہوجاؤ اصحاب کی کشتی پر نہیں- قرآن کتاب اللہ اور اھل بیت عترت سے متمسک رہنے کی دوا شفا کے لیے دے دی تھی اور آخری نسخہ اجرِ رسالت کی ادائیگی ہے جو مودت و محبتِ اھلِ بیت نہیں کرے گا وہ بحکم اللہ اجرِ رسالت ادا نہیں کرےگا اسکا اللہ،  رسول و اولوالامر پر ایمان نہیں اور جسکا اللہ،  رسول اور قرآن پر ایمان نہیں وہ مومن تو دور مسلمان ہی نہیں.... خدارا راہِ حق نجات کےلئے اختیار کریں.... آمین
* نظام الحسینی

اسلامی تصّوف میں صوفیاء کے پانچ طبقات

حضور صلعم کے زمانے میں چونکہ اھلِ بیت کے بعد صحابہ کا سب سے بڑا درجہ تھا اسیلئے مسجدِ نبوی کے چبوترے پر دن رات نشیب و فراز میں زندگی گزارنے والے قلیل تعداد میں اھلِ طریقت،  حقیقت و معرفت اصحابِ صفّہ کہلاتے تھے صوفی یا ولی یا عارف نہیں- وہ صوف لباس زیب تن کرتے تھے اسلئے اصحابِ صفّہ کہلاتے تھے وہ لوگ حضور کے مرید و طالب تھے اور مولا علی روحانی،  باطنی اور عرفانی خلیفہ کی حیثیت سے. انہیں علمِ لدنّی کی تعلیم اور عرفانِ الٰہی کی تربیت کرتے تھے جن میں حضرت بلال،  حضرت سلمان فارسی،  حضرت ابوذر غفاری،  حضرت سعید خدری،  حضرت مقداد،  حضرت قنبر،  حضرت کمیل،  حضرت میثم وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں اور اصحابِ صفّہ دن رات یادِالٰہی میں مست و بیخود رہتے تھےنیز ظاہری عبادات کے علاوہ باطنی،  روحانی اور عرفانی عبادات مثلاً اذکار،  اشغال و مراقبہ وغیرہ میں مگن رہتے تھے گرچہ اس زمانے میں وہ صوفی نہیں کہلاتے تھے مگر صوفی صفت تھے اور ان میں سے بیشتر اصحاب کو حضور اپنی حیاتِ طیبہ میں شیعیانِ علی کہ کر خطاب فرماتے تھے حتٰی کہ سلمان فارسی کو اپنے اھلِ بیت میں شمار فرماتے تھے- مولا علی کے چار روحانی خلفاء تھے دو حسنین علیہ السلام اھل بیت سے تیسرے حضور کے غلام زید کے بیٹے کمیل اور چوتھے حضور کی کنیز کے بیٹے خواجہ حسن بصری جنکے بارے میں مشہور ہے کہ انکی ماں کام میں مشغول تھیں اور انکا بچّہ حسن بصری رورہا تھا اتنے میں گھر میں داخل ہوئے اور روتے بچّے کو گود میں اٹھالیا جسکی برکت سے حسن بصری نے ولی اللہ کی حیثیت سے اتنا بلند مقام پالیا کہ امام العارفین اور سیّد الاولیاء نے انہیں خلافت دی- اھلِ معرفت کے سارے سلاسل حضرت امام حسین اور خواجہ حسن بصری سے آج تک جاری و ساری ہیں- تابعین میں حضرت اویس قرنی جیسے عاشقِ رسول تھے جنہوں نے حضور کی ظاہری زیارت نہیں کی تھی مگر باطنی و روحانی بیعت کی بناء پر وہ اپنے مرشد حضور صلعم سے فنا فی الشیخ کے درجے پر غیبی طور پر فائز تھے- تبع تابعین میں معروف اولیاء و اصفیاء معروف کرخی،  حبیب عجمی،  فضیل بن عیاض وغیرہ تھے- اسطرح حضرت امام علی رضا علیہ السلام تک غیر آلِ محمد اور غیر سادات ائمّہ طاہرین کی روحانی بیعت کی بدولت اپنی باطنی عبادات کے ذریعے عرفانی پیاس بجھاتے رہے اور عرفان کی منازل ائمہ اطہار کی رہنمائ میں طے کرتے گئے- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فقہءمحمدیہ کی بنیاد عملی طور پر رکھی جسے انکے شاگردوں نے فقہءجعفریہ سے منسوب کیا- اس زمانے تک جتنے عرفاء ائمہ اطہار سے تعلیم و تربیتِ معرفت حاصل کرتے تھے کسی ظاہری فقہ کی عدم موجودگی میں فقہءمحمدی یعنی سنت و سیرت محمدی و آلِ محمدی کی تقلید و پیروی کرتے ہوئے" عطیع اللہ و عطیع الرسول و اولوالامر منکم" کی اطاعت و اتباع کرتے تھے یعنی ائمّہ اطہار کی- اسوقت تک کے عرفاء فقہءمحمدیہ کے شرعی مسائل قرآن و احادیثِ محمد و آلِ محمد کے مطابق عمل کرتے تھے اسکے بعد امام باقر اور امام جعفر علیہ السلام کے شاگرد ابو حنیفہ نے اجتہاد کرکے قیاس کو محور بنایا اور انک شاگردوں نے فقہءجعفری سے انحراف کرکے فقہء حنفیہ رائج کی پھر یکے بعد دیگرے مالکی،  شافعی اور حنبلی کی فقہیں منظر عام پر آئیں اور آخر میں عبد الوہاب نجدی کی فقہءوھابیہ آلِ محمد کی ضد و دشمنی میں رائج کی گئ- دریں اثناء اھل طریقت اور اھلِ سلاسل کے پانچ طبقات تاریخِ اسلام کے افق پر نمودار ہوچکے تھے- پہلا طبقہ ولیوں،  صوفیوں اور عارفوں کا وہ تھا جو چھ فقہوں کے رواج پانے سے قبل فقہء محمدیہ یعنی قرآن و سنت و سیرت محمد و آلِ محمد کو شریعت و طریقت کی منازلِ مقصود تصور کرتا تھا- فقہوں کے رائج ہونے پر دوسرے طبقے نے روش بدلی اور شریعت فقہاء سے لی اور معرفت ائّمہ اطہار سے جبکہ تیسرے طبقے نے شریعت فقہاء سے لی اور سلاسل و طریقت میں اھلِ سنّت کی فقہوں اور عقیدوں کے مطابق غیر عرفانی خلفاء اور صحابہ کو اھلِ معرفت میں شامل کرلیا مگر معرفت کا منبع شاہِ ولایت مولا علی کو ہی برقرار رکھا چوتھا طبقہ خود کو تصّوفِ اھلِ سنّت الجماعت کے نام سے مشہور کرانے میں مصروف ہوگیا اور پنجتن پاک کی افضلیت،  اہمیت،  افادیت و قدرو منزلت کے ساتھ چار خلفاء راشدین کو حضور کے چار یار سے تعبیر کرنے لگا اور پانچواں طبقہ صوفیوں کا وہ عالمِ وجود میں جانے رعوٰی کیا کہ نقشبندیہ سلسلے مولا علی سے نہیں بلکہ حضرت ابوبکر سے شروع ہوا ہے مگر یہاں نقشبندی سلسلے کے بانی سید بہاء الدین نقشبند نے خود وضاحت فرمادی کہ نسبی سلسلہ حضرت ابوبکر سے ہے مگر روحانی،  باطنی و عرفانی شجرہ مولا علی سے ہی ملتا ہے غرضکہ اسلامی تصّوف جس نے خود کو یونانی،  ھندوی،  بدھ مت اور ایرانی عصّوف اور درویشی نیز رھبانیت سے آلودہ نہیں ہونے دیا مگر اھلِ بیت و آلِ محمد کی ضد،  عداوت،حسد،  مخاصمت اور ہماری،  سیاسی انقلابات اور حکمرانوں کی یاری میں سرشار دنیا پرست،  خود پرست،  منصب پرست اور نفس پرست نام نہاد خودساختہ صوفیوں نے ایران و عراق کے علمائے ظاہر کے ساتھ سودے بازی کرکے عقائد اھلِ بیت و چہاردہ معصومین و آلِ محمد کو کاری ضرب. لگایا اور جھوٹی حدیثوں اور روایتوں کا سہارا لیکر اجتہاد کے نقاب میں مجتہدین نے بھولے بھالے شیعوں کو معرفت اور تصوف کے اس انمول اور بیش بہا خزانے اور سرمائے سے محروم کردیا جو اھلِ بیت و آلِ محمد سے قیامت تک منسوب رہیگا
* نظام الحسینی

دعا


#Transliteration:-
"Ilaahi ba'haq e Bani Fatima,
Ke Bar koul e Imaa'n kuni khatima... 
Agar dao'atam rad kuni dar qubool,
Mann'o dast'o damaan e Aal'e Rasool (saw)..."

#Urdu_Translation:-
"Ae Rabb, Aulaad e Sayyidah Fatima ke sadqey, 
Mujhe Imaan pe mout naseeb farma...
Meri duaa qubool ho ya naa ho,
Buss mere hath me Daman e Aal'e Rasool (saw) rakhna..."

#English_Translation:-
" Oh Lord, for the sake of Progeny of Sayyida Fatimah, 
Grant me death with Imaan...
Whether my dua is accepted or not,
Always keep my hand attached to the door of Progeny of the Holy Prophet (saw)..."

- Shaykh Sadi Shirazi Soharwardi (Rahima'ullah)

شب کی پانچ عبادات

سرورِ کائنات حضور مقبول صلٰی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مرتبہ مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا کہ اے علی!  رات کو پانچ کام کرکے سویا کرو:--
1- چار ہزار دینار صدقہ دے کر
2- ایک قرآن شریف پڑھ کر
3- جنّت کی قیمت دے کر
4- دو لڑنے والوں میں صلح کرا کر
5- ایک حج پورا کرکے
مولا علی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلعم!  یہ کام بہت دشوار. ہے،  کیسے ہوسکے گا؟ 
 حضور نے ارشاد فرمایا:-- 1- چار مرتبہ سورہءفاتحہ پڑھ کر سویا کرو اسکے. بدلے چار ہزار دینار صدقہ تمہارے نامہءاعمال میں لکھا جائے گا
2- تین مرتبہ سورہءاخلاص" قل ھو اللہُ احد" پڑھ کر سویا کرو ایک قرآن پاک پڑھنے کے برابر ثواب ملے گا
3- تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر سویا کرو کہ اسطرح جنّت کی قیمت ادا ہوگی
4- دس مرتبہ استغفار پڑھ کر سویا کرو اسکا ثواب دو لڑنے والوں میں صلح کرانے کے برابر ہوگا
5- چار مرتبہ تیسرا کلمہ تمجید پڑھ کر سویا کرو کہ ایک حج کے برابر ثواب ہوگا
حضرت علی ع نے عرض کیا یا رسول اللہ صلعم میں ہر شب یہ عمل کرکے سویا کرونگا
دراصل مولا علی تو سِّر وحدت اور کُلِّ ایمان ہیں،  انہیں عبادات جلی اور خفی کا پورو علم تھا مگر حضور نے انکے بہانے مومنین کو باطنی عبادات کی تعلیم دی ہے تاکہ قلیل عبادت سے کثیر ثواب حاصل ہو...... نظام الحسینی

اقوالِ زّریں

* اللہ انصاف کرنے والوں کو ہی دوست رکھتا ہے
* اللہ بے نیاز و بردبار ہے
* اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو
* اللہ کسی فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا
* اللہ کی یاد سے غافل نہ بنو
* اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے
* اللہ کسی ناشکرے اور بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا
* اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے
* لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ
* مسلمان مسلمان کا آئینہ ہے
* دل شکستہ نہ ہو،  غم نہ کرو،تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو
* حق کی خدمت کےلئے کمربستہ رہو
* مرد کا حصّہ دو عورتوں کے برابر ہے
* اللہ سے ڈرو اسکی سزا بہت سخت ہے
* علم وہ موتی ہے جسکی چوری نہیں کی جاسکتی
* انسان خاموشی میں کائنات میں بہتی ہوئ قوت کو اپنی طرف کھینچتا ہے
* ایک چھلانگ لگانے سے انسان کنویں میں گرسکتا ہے مگر سو چھلانگ لگانے پر بھی باہر نہیں آسکتا
* حاسد ہمیشہ غم میں مبتلا رہتا ہے
* آہستہ بولنا،  نیچی نگاہ رکھنا،  میانہ چال سے چلنا ایمان کی نشانی ہے
* کم بولنا حکمت ہے،  کم سونا عبادت ہے،  کم کھانا صحت ہے
* دل کی سب سے بڑی بیماری حسد ہے
* اللہ کو ہر وقت اپنے ساتھ سمجگنا افضل ترین ایمان ہے
* جو چیز ساتھ جاتی ہے وہ عمل ہے
* خوبیاں قربانیوں سے پیدا ہوتی ہیں
* اپنی مصیبتوں کو چھپانا،  نیکی کے بہت بڑے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے
* وہ مسلمان نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے اسکا ہمسایہ امان میں نہ ہو
* وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا جس نے ماں باپ دونوں یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا مگر انکی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا
* بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو،  جو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت خود کو قابو میں رکھے
* جو شخص یتیم کو اپنے کھانے پینے میں شریک کرے،  اللہ اسکے لئے جنت واجب کردے گا
* اب بھی ہم نے تم کو پیدا کیا ہے اور تم قیامت کے دن دوبارہ پید کرنے کو حق کیوں نہیں سمجھتے جس کا کہ ہم نے وعدہ کیا ہے
* ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہے...سلام کا جواب دینا،  بیمار پرسی کرنا،  جنازے کے ساتھ جانا،  بلاوے کو قبول کرنا،  چھینک کا جواب دینا
* اشخاص کو حق سے پہچانو،  حق کو اشخاص سے نہیں
* نیکی کے عوض نیکی،  حقِ ادائیگی ہے
* تعجب ہے اس پر جو موت کو حق جانتا ہے اور پھر بھی ہنستا ہے
* جو شخص بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے وہ خدائے تعالٰی کے بھی ادا کریگا
* خدا جو کچھ تمہارے حق میں پسند کرے تم اسکے حق میں رہو
* تمہارا رزق آسمانوں میں ہے اور تم اسکو زمین میں سمجھے ہو
* تمام اعضاء کے مقابلے میں زبان کو سخت ترین عذاب ہوگا
* جھوٹی قسم کھانے والے کا ٹھکانا جہنم ہے
* ظ الموں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے
* دنیا کی عزت مال و دولت سے ہے اور آخرت کی عزت عقائد و اعمال سے ہے
* ماں باپ کے نافرمان کا فرض و نفل ایک بھی قبول نہیں ہوتا
* گناہوں سے بچنا چاہتے ہو تو کثرت سے استغفار پڑھا کرو
* بزرگ بننا چاہتے ہو تو مصیبت کے وقت خداوند قدوس کی شکایت نہ کرو
* ایمان مکمل کرنا چاہتے ہو تو ہمیشہ پاک اور طاہر رہا کرو
* عادل و منصف بننا چاہتے ہو تو دوسروں کےلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو
* زبان کی حفاظت دولت سے زیادہ مشکل ہوتی ہے
* عالمِ صالح سے ایک گھنٹے کی گفتگو دس برس کے مطالعے سے زیادہ مفید ہے
* وہ شخص جو چپ رہا اس نے نجات پائ
* مصائب سے نہ گھبراؤ کیونکہ ستارے اندھیرے میں ہی چمکتے ہیں
* کاہلی،  تباہی و بربادی کا دروازہ کھول دیتی ہے
* وقت کی قدر کرو وقت بڑی نعمت ہے
* موت سے نہ ڈرو وہ زندگی کا انجام ہے اور ضرور آئیگی
* رنگ روپ و دولت پر مٹنا بے جا ہے
* عقلمند وہ ہے جو دوسروں کو بیوقوف نہیں سمجھتا
* عقل ایک خدائ نعمت ہے جو تعلیم اور تجربہ سے زیادہ ہوتی ہے
* ہدایت کا سب سے پہلا مستحق تمہارا نفس ہے
* برا کام صرف اسلئے برا نہیں کہ وہ ممنوع ہے بلکہ وہ نقصاندہ بھی ہے
* اخلاق کا اچھا ہونا محبتِ الٰہی کی دلیل ہے
* دولت انسان کو شریف نہیں بناسکتی اسی طرح غربت انسان کو کمینہ نہیں بناسکتی
* سچائ کبھی اپنی تلاش کرنے والوں کو ذلیل نہیں کرتی
* دنیا کی ہر لذّت فانی ہے اسلئے ابدی راحتوں کو تلاش کرو
* دوزخ سے نجات چاہتے ہو تو خدمتِ خلقِ خدا کو شعار بناؤ
* نظام الحسینی

نجات کا دارومدار عقائد پر ہے اعمال پر نہیں

 یہ امر مسلّم ہے کہ نجات ہی کی غرض سے اللہ تعالٰی نے دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء و مرسلین بھیجے اور حضور صلعم آخری نبی اور رسول ہیں جنکی نبّت و رسالت قیامت تک کےلئے ہے- ظاہری طور پر وہ بحیثیت ذات محمد بن عبداللہ آپ پردہ فرماگئے مگر بحکم اللہ انہوں نے اپنے بعد بارہ ھادیوں کو قیامت تک ہدایت کےلئے نامزد اور مخصوص فرمادیا جو بہ اعتبار صفت اپنے اپنے زمانے کا صفاتی محمد ہے کیونکہ حضور کی متفقہ حدیث ہے کہ " ہم میں سے اوّل بھی محمد،  اوسط بھی محمد،  آخری بھی محمد غرضکہ ہم کُل کے کُل محمد ہیں"- یعنی اپنے اپنے دور میں حضور کے بارہ خلفاء،  اوصیاء،  ائمّہ،جانشیں سب قریش اور بنی ہاشم سے ہونگے یہ الگ بات ہے کہ امتِ مسلمہ نے اسی طرح حدیث کی بے حرمتی کرکے" بنی ہاشم" کو حذف کرکے اپنے مطلب کے خلفاء منتخب کرلئے جنکا تعلق قریش سے تھا اور جن میں معاویہ اور یزید بھی شامل ہیں جبکہ قولِ الٰہی ہے کہ امامت ابراہیم کی ذرّیت میں میں رہےگی مگر یہ منصب ظالموں کو نہیں ملے گا مگر امتِ مسلمہ کو چڑھتے سورج کی پوجا میں نہ اللہ کے حکم کی پرواہ رہی اور نہ ہی رسول کی وصّیت کی اور انہوں نے رسول کی ضد میں اجماع و شورٰی کے ذریعے اللہ و رسول کی خلاف ورزی کرکے سیاسی مصلحت اور آلِ محمد کی ضد،  حسد،  تعّصب،  کدورت اور دشمنی میں بنی ہاشم کو چھوڑ کرقبیلہءقریش سے یکے بعد دیگرے خلفاء منتخب کرلئے اور حقوقِ آلِ محمد غصب کرکے اسلام کو حق و باطل یعنی حسینی و یزیدی اسلام میں منقسم کردیا - اسی طرح اپنے مفاد میں صحیح حدیثِ ثقلین" میں تم میں دو گرانقدر برابر وزن کی چیزیں--- قرآن کتاب اور اھلِ بیت عترت معلمّان چھوڑے جارہا ہوں دونوں سے متسمک رہوگے تو گمراہ نہیں ہوگے حتٰی کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کروگے"- اس حدیث کو بھی امت نے اھلِ بیت کی جگہ سنّت کردیا جبکہ مقام فکر ہے کہ جو قرآن اور سنّت نہیں مانے گا تو مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا تو گمراہی کا کہاں مسئلہ ہے،  حضور کی وفات کے وقت کہنے والے نے بغض آلِ محمد میں اپنے عقیدے کا اعلان کردیا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے اھلِ بیت سے انکاری فرقوں کی بنیاد اسی قول پر مبنی ہے- تیسری حقیقت یہ کھل کر آی کہ مخالفینِ اھلِ بیت سفینہءاھل. بیت پر سوار نہیں ہوئے اور کشتی سے دور. رہے جبکہ حضور کی متفقہ حدیث پاک ہے" میرے اھل بیت کی مثال کشتیءنوح جیسی ہے جو اس پر سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے دور ہوا غرقاب ہوگیا- چوتھی حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک کے حکم سے حضور نے اجرِ رسالت میں مودت و محبت اقرباء یعنی اھل بیت عترت سے مودت و محبت طلب کیا جو فرض الفرض اور واجب الواجب ہے مگر امتِ مسلمہ نے اجرِ رسالت کی ادائیگی ظلم و ستم،  وحشت و بربریت،حق تلفی و غصبیت کے ذریعے کی اور ان عقائدِ باطلہ کے ساتھ اعمال کی بنیاد پر جنّت کے ٹھیکیدار اور دعویدار بنے بیٹھے ہیں... یہ ایسا ہی ہے کہ توحید میں شرک، اللہ کے عدل سے انکار،  رسالت پر شک،  امامتِ الٰہیہ سے انکار اور قیامت کا مذاق اڑاکر دن رات نماز،  روزہ،  تہجّد،  سال میں حج و زکواۃ وغیرہ بکثرت اعمال بجالائے مگر عقائد باطلہ و گمراہ کن ہوں تو ایسوں کی ہدایت و نجات کیا معنی؟ 
 اسیلئے نجات کا دارومدار عقائد حمیدہ پر ہے عقائدِ باطلہ پر نہیں- ہر مذہب کے کچھ اصول یعنی جڑیں اور کچھ فروع یعنی شاخیں ہوتی ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ جڑوں کے بغیر شاخوں کا تصور بھی محال ہے اور اگر جڑ ہی سوکھ یا سڑ جائے تو شاخوں پر پھول پھل نہ آئیں گے اور نہ اس درخت سے کوئ فیضیاب ہوگا- درخت کے وجود و فوائد کا انحصار جڑ پر ہوتا ہے شاخوں پر نہیں- اسیلئے اگر عقیدہ صحیح نہیں تو عملِ کثیر بھی بے فائدہ اور بیسود ہے اور اگر عقیدہ صحیح ہے تو قلیل عمل بھی مقبول ہے اس سلسلے میں علاّمہ حلّی کی کتاب" احسن العقائد" میں منقول ہے" اصولِ دین وہ ہیں جن پر دین کی بنیاد قائم ہے اگر ان میں سے کسی ایک کو علیٰحدہ کرلیا جائے تو دین ہی باقی نہ رہے"- مزید فرماتے ہیں" عبادات و اعمال کی قبولیت اور نجاتِ اخروی کا دارومدار اصولِ دین،  اسلام کی معرفت اور انکے اعتقاد پر ہے- اصول دین کا اعتقاد و عدم اعتقاد ہی ثواب دائمی و عذاب دائمی کا سبب ہے"- سورہ طور کی21 آیت میں ارشاد خداوندی ہے " اور جو لوگ ایمان لائے اور انکی اولاد نے ایمان میں انکا اتباع کیا ہم انکے ساتھ انکی اولاد کو بھی ملادیں گے"- کتاب المومن میں امام محمد باقر ع کایہ قول موجود ہے" قیامت کے خداوند عالم اپنے مومن بندے کو روکے گا اور اسکا ایک ایک گناہ گنوائے گا پھر انہیں معاف فرمائے گا اور اسکی خبر کسی ملک مقرب کو ہوگی نہ کسی نبی مرسل کو"- علامہ حلّی مزید رقمطراز ہیں کہ رسول اللہ کی امّت کے73 فرقوں میں سے 72 فرقوں کا ناری اور ایک فرقے کا ناجی ہونا فرقوں کے اعمال کے لحاظ سے نہیں بلکہ عقائد کے اعتبار سے ہے اس لئے کہ اعمال کے لحاظ سے کسی فرقے کے کل افراد کا ناری یا ناجی ہونا عقل کے خلاف ہے- کسی فرقے کے تمام افراد اعمال میں متحد نہیں ہیں- جب اعمال کے لحاظ سے کسی فرقے کے افراد میں مساوات نہیں ہے تو جزا و سزا میں مساوات کیسے ہوسکتی ہے؟  پس امت محمدیہ کے ہر فرقے کا فرض ہے کہ وہ اپنے عقائد کو عقل کی کسوٹی پر پرکھے کیونکہ اعمال میں غلطیاں قابل عفو ہیں لیکن وہ عقائد جن پر مذہب کی بنیاد قائم ہے اگر غلط و باطل ہیں تو اس. غلطی کے عفو کا امکان نہیں ہے- اسیلئے امتِ مسلمہ کے ہر فرقے کے ہر فرد کو احادیثِ نبوی اور معصومین کے فرمودات کی روشنی میں پہلے اپنے عقائد کی درستگی اور پھر اپنے اعمالِ صالحہ کی جانب متوجہ ہونا ہدایت و نجات کا سرچشمہ ہوگا..... نظام الحسینی

راہِ حق

شہنشاہِ ولایت،  امامت،  وصایت،  معرفت و فقر اور امام الاولیاء،  عرفاء و صوفیاء مولا علی بن ابی طالب کے قدموں کی خاک کو سرمہ بناکر آنکھوں میں لگانے والے خادمان غلامان عاشقان علمائے باطن بن کر فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے درجات پر فائز ہوکر ہر دور میں اپنے عرفان اور روحانی اقدار سے انسانیت کو بلا امتیاز مذہب،  مسلک،  فرقہ انسانوں کو فیضیاب کرتے رہیں گے کیونکہ انکا اللہ رب العالمین،  انکا رسول رحمتہ العالمین اور انکا مولا،  ولی و مرشد اکبر مولائے کائنات ہیں۔۔۔۔علمائے ظاہر تو اجتہاد کے نام پر معرفتِ الٰہی و چہاردہ معصومین،  آلِ محمد،  صالح اصحاب اور اولیاء اللہ سے غافل ہیں اور شریعت اور فقہ کی آڑ میں اپنا الّو سیدھا کررہے ہیں جبکہ معرفت اور تصّوف کا بیش بہا خزانہ ہمارے چہاردہ معصومین کے اسرار و رموز سے منسوب ہے مگر ان مجتہدین نے چند اسلام دشمن زرخرید ضمیر فروش دنیا پرست حکمراں نواز خودساختہ نام نہاد جعلی اور ڈھونگی ولیوں صوفیوں اور عارفوں کی من مانی حرکتوں اور سرگرمیوں کا بہانہ بناکر معرفت و تصّوف کا انکار کیا اور اسے گمراہ و زندیقیت قرار دیکر شیعوں کو دور کرادیا کیونکہ علمائے باطن و معرفت سے انہیِں انکی خداپرستی اور مولاپرستی کی وجہ سے حسد تھا اور انکی موجودگی میِں وہ دین،  شریعت اور فقہ کے ٹھیکیدار نہیں بن سکتے تھے اسیلئے انہوں نے تصوف کے سیاہ و تاریک گوشوں کو اجاگر کرکے انکی مذّمت کرکے شیعوں کو خداپرستی سے دور کراکے مجتہد پرستی کی راہ پر گامزن کردیا۔۔اب بھی وقت ہے کہ اولیاء،  عرفاء و صوفیاء،  جو غلامانِ مولا علی ہیں، کی معرفت بغض،  کینہ،  حسد،  عداوت،  کدورت،  نفرت کو بالائے طاق رکھ کر خلوص،  صدق و محبت سے حاصل کریں۔۔۔آمین۔۔۔۔نظام الحسینی