شریعت ظاہری اور مجازی ہے جبکہ طریقت نورانی، باطنی، روحانی اور عرفانی ہے- لا الہ الّا للہ نفی اور اثبات ہے جسکے ظاہری معنی پہلے تمام خداؤں کا انکار اور پھر وحدہ لا شریک کا اقرار ہے- واضح رہے کہ کلمہءشہادت، نما، روزہ وغیرہ کی صورت بھی اور حقیقت بھی انکے حقائق کو چھوڑ کر صرف ظاہر. صورتوں پر قناعت کرلینا فضول ہے- وہ شخص بڑا احمق ہے جو انکے حقائق تک نہیں پہنچتا- اللہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہیگا- سالک ابتدا میں نابینا ہوتا ہے جب حق تعالٰی کی طرف سے اسے بینائ مل جاتی ہے تو پھر اس سے دیکھتا اور سنتا ہے اور اپنے آپ کو فراموش کردیتا ہے اور جب ایسی صورت ہوجائے تو واصل ہمیشہ کےلئے زندہ اور بقاباللہ ہوجاتا ہے-" عارف معارف حق آگاہ، عاشق اللہ"- فقیرِ کامل اسے کہتے ہیں جو تمام ضروریات سے فارغ ہو اور اسکے باقی رہنے والے جمال کے سوا اور کسی چیز کا طالب نہ ہو کیونکہ تمام موجودات اسکے باقی رہنے والے کا آئینہ اور مظہر ہیں اس واسطے وہ ان سب میں اپنا مقصود دیکھتا ہے- لہذٰا کامل فقیر وہ ہے جسکے دل سے سوائے اللہ تعالٰی کے اور کوئ مقصود و مطلوب نہ ہو جب ماسوا اللہ دل سے دور ہوجاتاہے مقصد حاصل ہوجاتا ہے پس طالب کو ہمیشہ مطلوب و مقصود کے درپے رہنا چاہئے معلوم ہونا چاہئے کہ مقصود یہی درد و سوز ہےخواہ حقیقی ہو یا مجازی، یہاں سوزِ مجازی سے مراد ابتدائے احکامِ شریعت اور سوزِ حقیقی سے مراد معرفت ہے-
من عرف اللہ لا یقولُ اللہ و من یقولُ ما عرف اللہ یعنی جسے معرفتِ حق تعالٰی حاصل ہوجاتی ہے وہ اللہ اللہ نہیں کہتا پھرتا جو کہتا پھرتا ہے اسے معرفت میّسر نہیں بمصداق من عرفہ ربّہہ فقد عرفہ ربّہہ یعنی جس نے اپنے/ ذات/ ہستی/ وجود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا بمصداق من عرفہ ربہہ فقد کُل لسانہی و قطع امر یعنی جس کو اپنے رب کی معرفت حاصل ہوگئ وہ گونگا اور لنگڑا ہوگیا- عارفِ کامل کی حالت مقامِ یاد سے بھی گزر جاتی ہے کیونکہ یاد بھی ایک قسم کی دوئ ہے اور دوئ عارفوں کے نزدیک نقص ہے- ارشاد خداوندی ہے وَ ھُوَ معکم اینما کُنتم یعنی تم جہاں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے- عارف صحیح معنوں میں شہنشاہ ہوجاتا ہے اسے بجز ذات ایزدی نہ کسی سے امید ہوتی ہے اور نہ کسی سے ڈر- ایسے لوگوں کے حق میں باری تعالٰی کا ارشاد ہے الا انّ اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون یعنی اولیاء اللہ کو نہ کسی کا خوف ہوتا ہے نہ کسی کا ڈر- اللہ بندے کے دل میں ہے اور دل قالبِ انساں میں، مگر دل دو قسم کا ہے ایک دلِ مجازی دوسرا دلِ حقیقی- حقیقی دل وہ ہے جو نہ داہنے جانب ہے نہ بائیں جانب نہ اوپر کی طرف نہ نیچے کی طرف نہ دور نہ نزدیک مگر اس حقیقی دل کی شناخت آسان نہیں صرف مقّربانِ خدا اسکی معرفت رکھتے ہیں مومنِ کامل کا دل درحقیقت عرشِ خدا ہوتا ہے- قرب و حضوری بغیر صحبتِ مرشدِ کامل حاصل نہیں ہوسکتی، معرفت کے اسرار و رموز کا گنجینہ وہی ہوتا ہے کامل اور طالبانِ صادق سوال و جواب و مناظرہ و بحث نہیں کیا کرتے بلکہ خاموش اور با ادب رہتے ہیں-
قربِِ الٰہی اور خدا شناسی ایک دقیق مسئلہ ہے اور اسکی طلب اور حصول کے باب میں ابتک لاتعداد عرفاء، اولیاء و صوفیاء نے طبع آزمائی کی ہے اور اس دشوار گزار منزل تک پہنچنے میں رہنمائ کی ہےطالبانِ حق کو" اللہُ الصمد" اور " لَم یَلِد الم یُولَد" کے اسرار و انوار کا ماہر ہونا چاہئے- سوائے اھلِ معرفت کے کسی اور کو عشق کے اسرار و رموزات سے واقف نہیں کرانا چاہئے- اہلِ معرفت کی معرفت کیسے حاصل ہو؟ اھلِ معرفت کی شناخت و علامت ترک ہے- جس میں ترک ہے یقیناً وہ اھلِ معرفت ہے اور اسے قربِ الٰہی اور خدا شناسی حاصل ہے اور جس میں ترک نہیں اس میں معرفتِ حق کی بُو بھی نہیں- کلمہءشہادت اور نفی و اثبات حق تعالٰی کی معرفت ہے، مال، جاہ و سطوت، مرتبہ و منصب، دولت و ثروت، حرص و طمع، شہرت و نمئش بڑے بھاری بت اور دیگر خدا ہیں- اس نفس پرستی، ہوس پرستی، دنیا پرستی، خود پرستی اور جاہ پرستی نے خدا پرستی سے ہمیشہ دور کیا ہے، اچھے اچھّوں کو گمراہ کیا ہے اور صراطِ مستقیم سے دور کیا ہے، راہِ حق سے بھٹکایا ہے، اللہ و رسول و آلِ رسول کی تعلیمات، احکامات، فرمودات، ارشادات اور تلقینات سے انحراف کرایا ہے، اھلِ بیت کے سفینے سے دور کرایا ہے، قرآن بظاہر کیکر معّلمان اور وارثانِ قرآن اھلِ بیت عترت کا دامن چھڑوایا ہے، بحکمِ الٰہی اجرِ رسالت نہیں ادا کررہے ہیں- اھلِ بیت پر صحابہ کو مقّدم کررہے ہیں، محمد و آلِ محمد کی اہمیت، افادیت، افضلیت اور معرفت سے انکار کرتے آئے آئے ہیں، محمدیت اور حسینیت کو فراموش و نظر انداز کرکے فقہءمحمدیہ کو ترک کرکے مختلف فقہوں، فرقوں اور مسلکوں میں منقسم ہوکر راہِ نجات کے متلاشی ہیں- یہی لوگ معبودوں کی پرستش کررہے ہیں، یہی لوگ معبودِ خلائق بن رہے ہیں، یہی لوگ جاہ و مال و منصب کی پوجا کررہے ہیں، پس جس نے مال و جاہ اور دنیا کی محبت دل سے نکال دی اسنے گویا پوری کی پوری نفی کردی اور جسے حق تعالٰی کی معرفت حاصل ہوگئ اس نے پورا کا پورا اثبات کرلیا جس نے کلمہء طیّب و کلمہءشہادت باطنی نہیں پڑھا اسے قربِ الٰی اور خداشناسی حاصل نہیں- نفی اپنے آپ کو نہ دیکھنا اور اثبات اللہ کے سوا کسی کو نہ دیکھنا ہے، بس نفی کی کرنا چاہئے ورنہ نفی کا کوئ فائدہ نہیں، صرف یہ ملحوظ رہے کہ ہستی صرف اللہ پاک کی ہستی ہے تو مطلب حاصل ہوجاتا ہے اور عارف فنا فی اللہ ہوجاتا ہے کیونکہ کوئ بھی خود بیں خدا بین نہیں ہوسکتا....
* نظام الحسینی
من عرف اللہ لا یقولُ اللہ اس حدیث کا حوالہ
ReplyDeleteمن عرف اللہ لا یقولُ اللہ اس حدیث کا حوالہ
ReplyDelete